سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو سے متعلق جنیوا میں ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کو 10 ارب ڈالر سے زائد کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں، یہ اقوام متحدہ اور پاکستان کی مشترکہ کاوش کی کامیابی ہے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوترس نے کانفرنس سے خطاب میں پاکستان کو سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے آئندہ تین برس کے دوران سولہ ارب ڈالر سے زائد اخراجات کا تخمینہ پیش کیا تھا، اقوام عالم، مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اخراجات کی 80 فیصد سے زائد رقوم مہیا کرنے کی یقین دہانی سیلاب کی بحالی کے عمل میں ایک بڑی پیش رفت ہے، اس کانفرنس نے نہ صرف یہ کہ گذشتہ برس کے سیلاب کی تباہی کے خلاف بھی دنیا کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول کروائی، بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور اس سلسلے میں ترقی یافتہ اقوام کی ذمہ داریوں کو بھی اُجاگر کیا ہے، امید کی جانی چاہئے کہ اس موقع پر کئے گئے وعدے اپنے وقت پر اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق عملی صورت اختیار کریں گے، جس سے تین کروڑ سے زائد سیلاب متاثرین کی بحالی ہوگی اور ان کی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے گا۔ اقوام عالم کا حوصلہ افزا ردعمل اور تعاون کی یقین دہانی خوش آئند، مگر اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا، اس حوالے سے سب سے اہم یہ ہے کہ متاثرین کے لئے دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کیا جائے، ان دنوں جب ملک میں سردی کی شدت ہے سیلاب متاثرین کے لئے دستیاب وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے، اس سخت موسم میں متاثرین کی بڑی تعداد کا خیموں میں رہنا یقینا تکلیف کا باعث ہوگا، گزشتہ دنوں ان خیموں میں کچھ بچوں کی سردی سے ہلاکت کی خبریں بھی آئی ہیں، اس لئے ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے حکومت اپنے طور پر متاثرین کو گرم کپڑے، رضائیاں اور اضافی کمبل وغیرہ فراہم کر سکتی ہے، سیلاب متاثرین کو خوراک کی فراہمی میں رکاوٹ کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں، جبکہ علاج کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، حکومتی اداروں کی طرف سے اگر مناسب انتظامات کیے جاتے تو شلٹر، خوراک اور ادویات کے حوالے سے سیلاب زدگان کی مشکلات کو کم کیا جا سکتا تھا، بہت سے علاقوں میں ابھی تک سیلاب کا پانی کھڑا ہے، جہاں مچھر پیدا ہوگئے ہیں، ان علاقوں میں ملیریا وبائی صورت اختیار کر چکا ہے، حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 40 لاکھ بچے ابھی تک سیلاب کے کھڑے پانی کے قریب رہنے پر مجبور ہیں، اگر سرکاری طور پر اس سنگینی کو محسوس کیا جاتا تو ان کو محفوظ فاصلے پر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف مالی وسائل کی دستیابی ہی مسائل کے حل میں رکاوٹ نہیں، ہمارا ادارہ جاتی رویہ اور کام کرنے کا طریقہ بھی اصلاح طلب ہے، اس صورتحال کا جائزہ لینا اور کام کرنے کے اطوار کو معیاری بنانا بھی ضروری ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران یقین دہانی کرائی تھی کہ عالمی امداد کا ایک ایک پیسہ شفاف انداز میں خرچ ہوگا۔ اب یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان دنیا کے لئے بہتر مثال قائم کرے اور شفافیت کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات دور کرے۔