وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب بھی کوئی سودا لینے جا وٗ جب تک دکان دار سے قیمت پر تکرار نہ ہوتی کوئی سودا خریدا ہی نہ جاتا‘ دکاندار کو بھی معلوم ہوتا کہ گاہک نے قیمت پر تکرار کرنی ہے اس لئے وہ پہلے سے قیمت ایسی بتاتا کہ تکرار کے بعد وہ اپنے منافع کے ساتھ چیز گاہک کو بیچ دیتا۔ گاہک بھی خوش کہ اس نے منہ مانگی قیمت نہیں دی اور دکاندار بھی خوش کہ اس نے اپنے منافع پر چیز بیچ دی ہے۔ گاؤں کے دکاندا ر سے تو ماسیاں کبھی منہ مانگی قیمت پر کوئی چیز خریدتی ہی نہیں تھیں اس لئے دکاندار پہلے سے ایسی قیمت بتاتا کہ اُسے قیمت کم کر کے بھی منافع پورا مل جائے۔ لیکن بعض اوقات اس بھاؤ تاؤ پر کافی مضحکہ خیز صورت حال بن جاتی‘ میں مسجد کو نماز پڑھنے جا رہا تھا‘ راستے میں گاؤ ں کی واحد دکان تھی؛دکاندار کا نام محمد فرید تھا مگراُسے سارے ہی ”نکا پاہیا“کہتے تھے۔ دکان میں ہمارے بڑے بھائی جان (جن کو سارے ویر کہتے تھے) میں جو سامنے سے گزرنے لگا تو دکاندار نے مجھ کو اندر بلا لیا اور کہنے لگا کہ سودا خریدنے کیلئے خود آیا کرو ویر کو نہ بھجوایا کرو‘ میں نے پوچھا کہ بات کیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ویر کو جو سودا دیا ہے اس کا میں نے منافع بھی نہیں رکھا مگر ویر کا اصرار ہے کہ قیمت کم کروں اب میں قیمت کیسے کم کر سکتا ہوں کہ میں نے تو ان کو مولو مول سودا دیا ہے مگر یہ مجھے پوری قیمت دینے کو تیار نہیں ہیں‘ ان میں گھاٹے پر تو سودا نہیں بیچ سکتا نا‘خیر جو سودا ہو ا سو ہوا اسکے بعد میں خود ہی سودا لے آتا اور بھائی جان کو دکان کو نہ جانے دیتا۔اسلئے کہ انکی عادت تو تکرار کی تھی جیسے کہ تقریباً سارے ہی گاؤں والے سودا قیمت پر تکرار کے بعد ہی خریدتے ہیں؛ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہم حویلیاں سے روزانہ ایبٹ آباد کالج پڑھنے کیلئے جاتے تھے‘ ایبٹ آباد کا کرایہ اس وقت چھ آنے تھا‘ ایک بوڑھی عورت بس پر سوار ہوئی تو اس نے چھ آنے کرایہ دینے سے انکار کر دیا، کنڈیکٹر کے ساتھ مائی کا جھگڑا شروع ہو گیا کنڈیکٹر چھ آنے کرایہ پر اصرار کر رہا تھا مگر مائی اُسے چھ آنے دینے کو تیا ر نہ تھی تا ہم کافی بحث وتکرار کے اور سواریوں کے سمجھانے بجھانے پر ماسی نے چھ آنے کرایہ دے دیا مگر وہ خوش نہ تھی کہ وہ کرائے میں کمی نہیں کروا سکی ایک وقت میں یوں ہوا کہ حویلیاں میں ایک کپڑے کی دکان کھلی اور اس نے ہر قسم کا کپڑا سوا روپے گز میں بیچنا شروع کر دیا۔ ایک ماسی جو کپڑا خریدنے آئی تو اس نے بھاؤ تاؤ والی بات شروع کر دی دکاندار نے کہا کہ ماسی دکان میں جو بھی کپڑا ہے اس کی قیمت سوا روپے گز ہی ہے ماسی نہ مانی۔ دکاندار ہوشیار تھا اُس نے اسی کپڑے کودوسری جانب سے ماسی کے سامنے کر دیا اور کہا کہ ماسی یہ کپڑا دو روپیہ گز ہے یہ لے لو ماسی نے خوشی خوشی وہ سوا روپیہ گز والا کپڑا دو روپے گز خرید لیا۔ بعض دفعہ ہم اپنی عادت کی وجہ سے گھاٹے کا سودا کر جاتے ہیں۔ ہم جب بھی کسی دکان سے خریداری کیلئے گئے ہیں اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ بھاؤ تاؤ کے بغیر کوئی بھی چیز نہیں خریدتے۔ آج کل تو بہت سی اشیا ء کی قیمت پہلے سے ان پر درج ہوتی ہے مگر اس کے باوجود دیہاتی خصوصاً عورتیں بھاؤ تاؤ کے بغیر کسی شے کی خریداری نہیں کرتیں‘ مگر دکاندار بھی ہوشیار ہوتے ہیں‘وہ گاہک کو چیزوں کی قیمت ایسی بتاتے ہیں کہ بحث تکرار کے بعد بھی دکاندار اچھا خاصا منافع کما لیتے ہیں تا ہم اب بحث تکرار والوں کی تعداد میں خاصی کمی آ گئی ہے اور خریدار بھی تکرار نہیں کرتے۔