آخری نشانی

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
کون نہیں جانتا آوازیں اور قلم گروی رکھ کریہاں دنیا کمائی جارہی ہے۔ادیب تو سماج کا ترجمان اور نباض ہوتاہے۔اس کا مزاج عوامی ہوتا ہے، ایک سچا اور کھرا تخلیق کار ہمیشہ حزب ِاختلاف کا کردار ادا کرتا ہے اور جبر،ظلم،ناانصافی اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف آواز بلند کرتاہے۔آج ایسے تخلیق کاروں سے معاشرہ خالی ہورہا ہے۔چند نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔انہی میں سے ایک نام ہمارے ڈاکٹر اجمل نیازی کا بھی ہے۔منیر نیازی کے بعد نوجوان اہلِ قلم کے سروں پر ہاتھ رکھنے والاصرف اجمل نیازی ہے۔منیر نیازی پنجاب کے دل،لاہور کا دروازہ تھا۔اب وہ دروازہ بند ہو چکا ہے مگر اس دروازے پر ایک شخص سفید پھول لیے ہر آنے والے کو پیش کرتا ہے اوراپنے قبیلے کے سردارمنیر نیازی کی یاد دلاتا ہے۔اجمل نیازی،بارش اور پرندوں کے خوابوں جیساشخص ہے۔وہ دکھوں سے اس لئے ہار نہیں مانتا کہ دکھ تو اس کے لیے نظموں جیسے مصرعے ساتھ لاتے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ اِن مصرعوں کی پڑیاں بنا کر کالموں میں باندھ دیتا ہے۔وہ ایک بے ضرر شخص ہے،بالکل اُس بابے کی طرح جو جنگل کی ایک گھاٹی میں تنہا رہتا تھا۔ایک روز اُسے اس کا پرانا دوست ملنے جا پہنچا۔اس نے دُور سے بابے کی طرف دیکھا تو اس کے ارد گرد بہت سے خرگوش،ہرن،تیتر مور،فاختائیں اورکبوتر بیٹھے تھے۔بلکہ کبوتر تو اُس کے کاندھوں پر نظر آرہے تھے۔بابے کا دوست جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا جانور اور پرندے ادھر اُدھر غائب ہونا شروع ہوگئے۔دوست نے بابے سے دریافت کیا : حیرت ہے،یہ پرندے، ہرن،خرگوش اور دیگر جانور تمہارے پاس سکون سے پڑے تھے، مجھے دیکھتے ہی غائب کیوں ہوگئے ہیں؟بابے نے مسکر ا کر کہا :   ”گوشت خوروں اور شکاریوں کو یہ مخلوق دُور سے پہچان لیتی ہے۔میں تو اِن کے لیے ایک درخت یا مٹی کے ٹیلے کی طرح ہوں 
۔انہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں۔اجمل نیازی بھی اب منیر نیازی کی صورت میں ڈھلتا جاتا ہے۔ہر عمر کی خواتین و حضرات کے لیے وہ چھتر چھاؤں کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔محبت کے اس شہر میں اجمل نیازی جیسے کتنے ہیں،جو بے لوث ہر عمر کے انسانوں سے پیار کرتے ہیں۔۔ ”دل قدرے اداس تھا۔سوچا اس شہر میں کس کے پاس خود کلامی کی جاسکتی ہے۔میں تمہارے پاس آگیا ہوں۔اور پھر وہ شام تک میرے ساتھ ہمکلام رہا۔اس روز اجمل نیازی نے بہت سی باتیں کیں،دل کی باتیں، گہری باتیں۔اس کی آواز میں آزردگی بھی نمایاں تھی۔ کہا :  ” اختر شمار!  پھولوں کو پھپھو ندی لگنے لگے اور تتلیاں خودکشی پر آمادہ نظرآئیں تو سمجھنا کہ زوال کا عروج آگیا ہے۔اس وقت شاعری  فریاد کرے گی اور کتابوں میں بچھو اور کاکروچ رینگنے لگیں گے۔“ اِن باتوں نے مجھ پر بھی اُداسی کی شال ڈال دی،میں دیر تک سوچتا رہا،اجمل نیازی اگر جم کر شاعری کرتا تو لوگ اس کے مصرعوں کے تعویز گھول کر پیتے اور محبت کو رام کرنے کے لیے گلے میں ڈال کر پھرتے۔۔۔مگر اس نے شاعری کو لوریاں دے کر اپنے کالموں میں سلادیا ہے۔وہ خالص پاکستانی ہے، وہ کسی مظلوم سے ظلم پر یا نا انصافی پر چُپ نہیں رہ سکتا،چاہے اسے کتنا ہی خسارہ اٹھانا پڑجائے۔اب کچھ دنوں سے وہ بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ لاہور کی زندہ شاموں میں قہقہہ لگانے والا،جب ہرطرف افرا تفری کا بازار دیکھتا ہے تو وہ کسی سے کچھ نہیں کہتا،کیوں کہ وہ خیرات میں ملی بادشاہی،ملاوٹ کی عزت اور باسی محبت کو زندگی کی اترن قرار دیتا ہے۔ وہ یاروں کا یار ہے مگر دشمنوں کے لئے بھی کینہ نہیں پالتا۔میں نے اس میں ساحل کی خودداری،یاروں کی دلداری،بچوں کی سی کلکاری  اور محبت کی سرشاری یکجا دیکھی ہے‘ دوستو! بھلے آج محبت کی کرنسی نہ چلے مگر وہ زندہ دل لاہور کی آخری نشانیوں میں سے ایک ہے۔آؤ اس کی زندگی میں اسے سلام کریں۔
(الحمرا ہال میں ایک تقریب میں پڑھا گیا)