جس گھر میں دیکھو بچے بیماری کا شکار ہیں، تیز بخار اور کھانسی نے ان کو آگھیرا ہے۔ یہ بات کسی ایک گھر تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ یہ صورتحال ہے‘ بچوں کی موجودہ اور مستقبل کی صحت پر آلودگی کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے تمام بچوں کی بہبود خطرے میں پڑچکی ہے۔کیا ہمارے بچے اپنی صحت گنوا کر سموگ اور آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت ادا کریں گے؟حکومت بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے اور بچوں کو چھٹیاں دینے کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے اقدامات کرچکی ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت صرف ہم اپنی صحت کے ذریعے ادا نہیں کرتے بلکہ طویل عرصہ آلودہ ماحول میں سانس لینے کی وجہ سے انسانوں کی عمر میں اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں بالخصوص ان کے آئی کیو میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔اس فضائی آلودگی کے اثرات عمر کے کس حصے میں پڑتے ہیں اس کا تخمینہ لگانا تو کافی مشکل ہے کیونکہ کسی فرد نے آلودہ ماحول کا کتنا سامنا کیا اور اسی طرح کے دیگر عناصر پر اس کا انحصار ہوتا ہے لیکن صرف ان ماحولیاتی اثرات کی حقیقت ہی کافی خوفناک ہے۔ کئی دہائیاں پہلے بیجنگ میں فضائی آلودگی کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ تھی۔ اگرچہ آج بھی فضا میں آلودگی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوسکی ہے لیکن شہر کی صفائی کے بعد اب ہوا کا معیار پہلے سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔چینی حکومت نے آلودگی کو کم کرنے کے لئے صفائی کے کافی سخت اقدامات لینے کا آغاز کیا۔ ان اقدامات میں کوئلے کے استعمال کو ترک کرنا، صنعتوں کو شہر سے دور کرنا، گیسوں کے اخراج کے حوالے سے سخت معیارات نافذ کرنا، ان معیارات کی نگرانی اور تعمیل نہ کرنے کی صورت میں صنعتوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنا اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ان ذرائع پر منتقل کرنا جس سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج نہ ہو، شامل ہیں۔بیجنگ کی فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے کئی سالوں تک محنت اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑے۔ کچھ اندازوں کے مطابق شہر میں فضائی آلودگی کی کمی کے سبب رہائشیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ پاکستان میں لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے خطرناک ترین شہروں میں سے ہے۔لاہور کے شہریوں کے لئے یہ ایک ایسا واحد مسئلہ ہے جس کا نجی سطح پر کوئی حل دستیاب نہیں ہے۔ گنتی کے چند لوگ گھروں اور گاڑیوں میں پیوریفائرز کی سہولت لگا سکتے ہیں لیکن کیا بچوں اور بڑوں کی حرکات کو صرف گاڑی اور گھروں تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ان دنوں جب آلودگی کی شرح انتہا پر ہوتی ہے، وہ لوگ جو نقل مکانی کرسکتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لے کر کسی اور مقام پر منتقل ہوجاتے ہیں لیکن پہلی بات یہ کہ کتنے لوگ ہیں جو نقل مکانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ سکول اور دفاتر وغیرہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے آلودہ فضا سے بچنے کے لیے یہ حل عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اسی طرح صنعتیں بنتی رہیں گی، سڑکوں پر مزید گاڑیاں آتی رہیں گی اور نہ صرف ہم یونہی آلودہ صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا اوریقینا فضائی آلودگی سے بچوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرے کو ٹالا جاسکے۔