ہم کہ خالص دیہاتی قسم کے آدمی واقع ہوئے ہیں اور اب شہروں میں آ بسے ہیں ہم اپنا ایک بہت بڑا ورثہ چھوڑ چھاڑ چکے ہیں۔ اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ایسا ورثہ ہے کہ جس نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جوڑا ہوا تھا کہ ہم میں کوئی یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ ہماری کسی کے ساتھ دوستی یا دشمنی ہے۔ ہم نے غمی اور شادی میں ایک ہو جانا ہوتا تھا۔ جب گاؤں میں کوئی میت ہو جاتی تو اس میں مردوں اور عورتوں کے بیٹھنے کیلئے چارپائیوں کی ضرورت ہوتی تھی اس لئے ہمارے لڑکوں اور نوجوانوں کا فرض ہوتا تھا کہ ان کیلئے گاؤں سے چارپائیاں لے کر آئیں۔ اس کیلئے سارے لڑکے بالے گھر گھر جاتے اور ہر گھر سے ایک چارپائی اٹھاتے اور میت والے گھر پہنچا ا ٓتے۔ اگر کچھ مہمان وہاں رات کو بھی رہنے والے ہوتے تو پھر لڑکے بالے گھر گھر جاتے اور اُن کے ہاں سے اگر سردیوں کا موسم ہوتا تو رضائیاں بھی مانگ کے لاتے اور میت والے گھر پہنچاتے ہاں جس بھی گھر سے ہم بستر لیتے اُس بستر پر گھر والے کا نام لکھ لیتے۔ تا کہ واپسی پر کسی کا بستر گم نہ ہو جائے۔ جب میت والا کام ختم ہو جاتا تو جس جس گھر سے چار پائیاں اور بستر لائے جاتے اس گھر والے خود جا کر اپنی چارپائیں اور بستر واپس لاتے۔ کسی گھر شادی ہوتی تو شادی والے گھر میں ایک دن پہلے دور دور کے مہمان آ جاتے اس کو ہم اپنی زبان مین نندروڑ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نندروڑ کو تو کم از کم ایک رات تو شادی والے گھر گزارنی ہو تی تھی اور اگر مہمان کچھ دن پہلے بھی آتے تو بھی تو اُن کے سونے کا بندوبست بھی گاؤں والوں کاہی ذمہ ہوتا اس لئے لڑکوں کا فرض تھا کہ گاؤں کے گھر گھر جا کر اُن کیلئے بستروں کا بندوبست کرتے۔ اس میں بھی جس بھی گھر سے بستر لاتے اُن کا نام بستر پر ضرور لکھا جاتا۔ تاکہ واپسی پر بستر بدل نہ جائے۔ اسی طرح مہمانوں کیلئے چارپائیوں کا بندوبست بھی اسی طرح کیاجاتا کہ ہر گھر سے چارپائی لی جاتی اور شادی والے گھر پہنچا دی جاتی۔ شادی والے دن مہمانوں اور جرگے کے بیٹھنے کو بھی گاؤں سے چاپائیاں اکٹھی کی جاتیں اور جہاں جرگے والوں نے بیٹھنا ہوتا وہاں پہنچا دی جاتیں۔ جب شادی کا کام ختم ہو جاتا تو لوگ اپنی اپنی چارپائیاں اور بستر واپس لے جاتے۔ آج جب یہ سب کچھ تقریباً ختم ہو چکا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ اصل ماحول تھا سارے گاؤں والے مل کر شادی اور غمی کو نبٹاتے اور شادی والے یاغمی والے گھر والوں کو احساس تک نہ ہوتا کہ اُن کے مہما ن کس طرح سنبھالے گئے ہیں اور کس طرح اُن کا سارا کام سمیٹا گیا ہے۔ جس دن ولیمہ ہوتا تو یہ بھی گاؤں میں ہی ہوتا عام طور پر یہ کام شادی والے دن ہی نمٹا لیا جاتا اور جرگوئی اور مہمان اور گاؤں والے کھانا کھانے کے بعد ہی لڑکی والوں کے گھر جاتے اور وہاں سے لڑکی لے کر آ جاتے۔ ہمارے ہاں لڑکی کے بھائی اور رشتہ دار اُس کے ڈولی لے کر اُس کے سسرال چھوڑ کر آتے مگر کچھ گاؤں میں ایسا رواج ہے کہ لڑکی والے ایک حد تک ہی ڈولی لے جاتے ہیں اور اس کے بعد ڈولی لے کے جانا لڑکے والوں کاہی کام ہوتا ہے۔ جب لڑکی کی ڈولی سسرال پہنچتی ہے تو وہاں کچھ رسوم عورتیں انجام دیتی ہیں او ر اور اس کے بعد مہمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ولیمے کا بندوبست بھی گاؤں والے ہی کرتے تھے۔چاول وغیرہ پکوانا اور اُن کو مہمانوں کو کھلانا بھی گاؤں کے نوجوانوں کی ہی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ اس سارے معاملے میں شادی یا غمی والے گھر والوں کو کچھ بھی تکلیف نہیں کرنی پڑتی تھی۔ اب گاؤں میں بھی نئی ہوا چل پڑی ہے اور اب گاؤں میں بھی شادی شہر سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔ اسلئے کہ شادی یا غمی میں کرسیوں کا رواج چل پڑا ہے جو شادی یاغمی والے گھر والوں کو خودہی کرنا پڑتا ہے۔ جب گاؤں میں شہر کی وبا چل پڑی ہے تو اب برادریوں نے اپنی اپنی کمیٹیاں بنا لی ہیں جو اپنے لئے کرسیوں وغیرہ کا بندوبست کرتی ہیں اور گھر والوں کو بہر حال تکلیف نہیں دیتے۔ اب برادریاں اپنی اپنی غمی شادی نبٹاتی ہیں۔ یہ سسٹم ہمارے ہاں بنیادی جمہوریتوں کی دین ہے کہ جب ایک جنبے کا بندہ الیکشن میں کھڑا ہوا اور ہارا یا جیتا اُس نے الزام لگا دیا کہ دوسری برادری والوں نے اُسے ووٹ نہیں دیئے اور بس وہ گاؤں والی برادری آپس کی برادریوں میں بٹ گئی اور پھر اپنی اپنی غمی شادی خود ہی نبیڑنی پڑتی ہے۔ جو ہم لوگوں کو جو ایک اشتراکیت میں رہ رہے تھے بری لگتی ہے۔ یہ کیسے ہو گیا کہ ایک گاؤں جو ایک برادری تھا (غمی اور شادی میں) کیسے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے اس سلسلے میں جہاں اچھی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں وہاں کچھ اچھی چیزیں وقت اپنے ساتھ لے بھی جاتا ہے اور پھر معاشرے میں ان روئیوں اور عادات کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے، گزرنے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے قریب تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتا تھا ایک چیز کی کمی اپنے دوسرے ساتھی کے ذریعے پوری کرتا اور یوں دونوں کے درمیان رابطے کا ایک بہانہ رہتا۔ جدید دور نے ہر کسی کو ایک دوسرے سے بے گانہ کردیا ہے کیونکہ اب کسی کو اپنے پڑوسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہر کوئی اپنی ضرورت خود پوری کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برسوں ساتھ رہنے والے پڑوسی کا نام پتہ معلوم نہیں ہوتا اگر پرانے زمانے کی طرح انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتے اور ہر کوئی اپنی ضرورت پوری کرنے سے قاصر رہتا تو لازمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رابطہ رہتا ایک اور جدید سہولت جس نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے وہ موبائل فون ہے جس میں ہر کوئی اپنی الگ دنیا بسائے رکھتا ہے اور اسے ارد گرد پیش آنے والے واقعات اور ساتھ موجود افراد کی خبر ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ قریب کی معلومات اور خبر رکھنے سے دور دراز کی خبریں اور معلومات زیادہ ضروری ہیں۔