پاکستان میں جو حالات آج کل چل رہے ہیں، آئیے کچھ دیر کیلئے آپ کو ان سے دور لئے چلتے ہیں‘ ویسے ارادہ تو تھا کہ آپ کو بیلجیئم کے خوبصورت شہروں کی سیر کرواتا لیکن کیا کریں راستے میں ہی رک گیا ہوں‘ اس شہر کو دیکھے بغیر جرمنی کے روڈ ٹور کا مزہ پورا نہیں ہوگا‘آپ نے جرمنی کے بڑے بڑے شہروں سے تو ملاقات کی ہوگی لیکن بریمن کا نام بھی شاید سنا نہ ہو، بس ایسا ہی ہمارا حال تھا‘کئی بار اس کے آس پاس سے گزرے لیکن ٹھہرے نہیں، مگر اس دفعہ کیل، جرمنی سے اگلا اسٹاپ بریمن نامی یہ شہر ہے؛ہم رات گئے اس شہر پہنچے اور سیدھے ہوٹل جا ٹھہرے۔ صبح ناشتے کے بعد ہماری پہلی منزل شہر کا ٹاؤن ہال تھا‘وہ ویک اینڈ کی عام سی صبح تھی، اس لئے شہر کی سڑکوں پر بہت زیادہ رش نہیں تھا‘ ہم نے ایک پارکنگ پلازہ میں گاڑی کھڑی کی جہاں ابھی پارکنگ کی بہت سی جگہیں دستیاب تھیں کئی دکانیں بھی ابھی بند تھیں، پارکنگ سے نکل کر ہم ٹاؤن ہال کی طرف چلے آئے‘ یہ ایک بڑے اسکوائر کا حصہ ہے جسے مارکیٹ پلز کہا جاتا ہے، جس کا ترجمہ مارکیٹ کی جگہ کیا جاسکتا ہے‘مارکیٹ پلز نام کا یہ اسکوائر پورے شہر پر بھاری ہے‘ کیا ہی شاندار مارکیٹ اسکوائر ہے‘ پراگ میں چارلس برج پر کھڑے ہوکر یا ٹالن میں اولڈ ٹاؤن کی برجیوں کے پاس کھڑے ہوکر جو زمانہ دیکھا جاسکتا ہے، بالکل ویسی ہی کھڑکی اس مارکیٹ پلز پر کھلتی ہے۔ٹائم مشین میں بیٹھ کر جادو کی دنیا کے ایک سفر کی داستان طرز کی یہ جگہ آپ کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے‘سچ پوچھئے تو ہماری اس شہر سے توقعات کچھ زیادہ نہیں تھیں اسی لئے اس پرشکوہ اسکوائر کو دیکھ کر دنگ رہ گئے‘600 سال پرانا یہ ٹاؤن ہال پاکستان کے اس باسی کو بتا رہا تھا کہ بستی بسنا کھیل نہیں، یہ بستے بستے بستی ہے۔ اس سے دائیں ہاتھ پر بریمن کیتھی ڈرل کی عمارت ہے جس کا ڈھانچہ غالباً 10ویں صدی اور بعد کے حصے 14ویں صدی میں بنائے گئے ہیں،یہیں پر ٹاؤن ہال کے پہلو میں ایک مجسمے کے گرد لوگوں کا جم غفیر رہتا ہے؛گدھے پر سوار ایک کتا، اس پر سوار ایک بلی اور اس پر سوار ایک مرغا، تھوڑی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہ ایک لوک کہانی کے کردار ہیں جس میں ان جانوروں کو شہر کا میوزیشن بتلایا گیا ہے‘ٹاؤن ہال اور خوبصورت اسکوائر سے چلتے چلتے ہم بریمن کے اولڈ ٹاؤن کی طرف چل دیئے۔ اس راستے پر کچھ دیر آگے چلیں تو آپ دریا کنارے جا پہنچتے ہیں‘ ہمارا اس شہر میں قیام مختصر تھا اس لئے دریا کنارے کو سلام کیا اور پرانے شہر کا رخ کرلیا‘ پرانے شہر میں داخلے کے ساتھ ایک بورڈ لگا دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا شنور، بریمن کا سب سے پرانا حصہ ہے‘ یہ تنگ گلیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے 2، 2 منزلہ گھر 15ویں اور 17ویں صدی کی یادگار ہیں‘یہ گلیاں دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں تھیں، اس لئے ان میں آج بھی اس گزرے زمانے کی جھلک باقی ہے۔ اس علاقے کا بیشتر حصہ گیلریز اور دکانوں پر مشتمل ہے؛ ان گلیوں میں گئے زمانوں کا سراغ ڈھونڈتے ہم بہت دیر تک چلتے چلے گئے اور بالآخر یہ سوچنے لگے کہ واپسی کی راہ لی جائے‘پرانے شہر کی سب گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد ہم پھر مارکیٹ اسکوائر کی طرف چلے آئے‘ ٹاؤن ہال کے پیچھے پرانے زمانے کی ایک فارمز مارکیٹ بنی ہوئی ہے، جہاں پر کھانے پینے کے بے شمار اسٹالز لگے ہوئے تھے۔ تازہ پھل، سبزیاں، پھول، پنیر اور اس طرز کی بے شمار اشیاء لوگ خرید اور بیچ رہے تھے۔ یہیں پر ایک مائیکرو گرین بیچنے والے شخص سے ملاقات ہوئی جو مختلف سبزیوں کے ننھے پودے فروخت کر رہا تھا‘اس کا آج کل خاصا رجحان ہے۔اب صبح کے 11، 12 بجنے والے ہوں گے اور وقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں رش بھی بڑھنے لگا تھا‘شہر کے میوزیشن جانوروں کے مجسمے کے پاس اب پہلے سے زیادہ بھیڑ تھی‘ہم ٹرام کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شہر کے بازار کی سمت چل پڑے‘ یہاں پر وہ سبھی برانڈز کی دکانیں دکھائی دے رہی تھیں جو یورپ کے دوسرے شہروں میں پائی جاتی ہیں‘پھر زاد راہ کے طور پر کچھ پھل اور پانی خریدا، اتنے میں ہلکی ہلکی بارش برسنے لگی‘ ہم نے اپنا رخ اس مال کی طرف موڑ دیا جس کی بیسمنٹ میں ہم نے گاڑی کھڑی کی تھی‘مارکیٹ کا وہ راستہ جو صبح جاتے ہوئے تقریباً ویران پڑا تھا، اب خاصے رش کیساتھ آباد تھا‘ قریباً سبھی دکانیں اب کھل چکی تھیں۔شہر کی خوبصورتی کو دل ہی دل میں داد دیتے ہم نے اگلی منزل کی جانب قدم اٹھانے کی ٹھانی لیکن آج کئی ماہ بعد بھی بریمن کا ٹاؤن ہال اسکوائر ذہن پرنقش ہے۔