دوستی کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں‘ہم نے امریکہ سے دوستی کی‘اس نے ہمیں گندم دی مگر گندم کی اضافی پیداوار کے طریقے نہیں سکھائے اس نے ہمیں ٹینک دیئے مگر ٹینک بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں دی‘ اس نے ہمیں ہوائی جہاز دیئے مگر ان کی مرمت کا طریقہ نہیں سکھایا‘اس نے ہمیں بے تحاشا اسلحہ دیامگرایک بندوق کی گولی بنانے کی بھی ٹیکنالوجی ہمیں منتقل نہیں کی‘ آج پوری دنیا کا رُخ چین کی طرف ہے‘ ایک وقت تھا کہ چین کی مدد سے ہم نے واہ میں آرڈیننس فیکٹری کی بنیاد رکھی اور اس کیساتھ ہی ہم نے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی ٹیکنالو جی بھی حاصل کر لی او ر اب ہم یہ چیزیں خود بنا رہے ہیں اور جدید ترین ٹینکوں سے لے کر جے ایف سیونٹین جیسے جدید طیاروں تک ہم ہر لحاظ سے اسلحے میں خود کفیل ہوگئے ہیں اب ہمیں کسی بھی دوسرے ملک سے اسلحہ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر خدانخواستہ ہمیں کسی جنگ میں جانا پڑتا ہے تو ہمارے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت کچھ ہے‘کہنے کامطلب یہ کہ ایک دوست نے ہمیں مچھلی دی کہ مزے سے کھاؤ اور دوسرے نے ہمیں کانٹا پکڑا دیا کہ خود مچھلی کا شکار کرو اور کھاؤ‘ دراصل ہمار ا سچا دوست وہ ہے کہ جس نے ہمیں مچھلی شکار کرنے کی تربیت دی نہ کہ ہمیں اپنی شکار کی ہوئی مچھلی دے کر ہمیں اپاہج بنایا۔ہم نے روس کی طرف ہاتھ بڑھایا تواس نے ہمیں ایک بڑی سٹیل ملز لگاکر دیدی تاکہ ہم لوہے کا استعمال کر کے اپنی ساری جنگی اور سول ضروریات پوری کر سکیں اسلئے چین سے ڈالر تو مل نہیں رہے لیکن ایک اچھی بات یہ ہو گئی ہے کہ سی پیک کی شکل میں ایک ایسا منصوبہ پاکستان میں پروان چڑھا ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی ترقی کی بنیاد پڑی ہے اور اگر افغانستان میں حالات اچھے ہوئے اور وہاں پر بدامنی کا خاتمہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب افغانستان کے راستے وسطی ایشیاء تک سی پیک کا دائرہ پھیل جائے اور یہ پورا خطہ خوشحالی اورترقی کا گہوارہ بنے۔اس وقت چین نے ہر شعبہ زندگی میں جس طرح پاکستان کی مدد کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ چین سے تجارت کا حجم زیادہ ہو گیا ہے جو ہمیں امداد سے زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے‘اس سے ہماری مدد بھی ہو جائے گی اور کسی کا قرض بھی نہیں ہو گا۔ایک سچے دوست سے یہی توقع رکھنی چاہئے کہ وہ آپ کو بھیک دے کر اپاہج نہیں بنائے گا بلکہ روپے جنریٹ کرنے کی مشین بنا دے گاموجودہ حالات میں یہ چین ہی ہے جو ہمارے کام آرہا ہے۔ اس وقت دیکھا جائے تو چین ہی پوری دنیا پر ٹیکنالوجی کے ذریعے راج کر رہاہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ چین نے اپنے ہاں تعلیمی نظام سے لے کر ہر شعبے میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رکھا اور آج وہ پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔پاکستان بھی چین کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر مسحکم بنیادوں پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کو ممکن بنائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک آگے نہ بڑھے۔ پاکستان کو چین کی پیروی کرتے ہوئے سب سے پہلے زراعت کے شعبے کو ترقی دینا چاہئے تاکہ ایک زرعی ملک کے طور پر ہم خوراک میں خود کفیل ہوں اور غذائی قلت کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ اور دوسرے مرحلے میں ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے تعلیمی اداروں سے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں کردار ادا کرنے والے ماہر ہاتھ آئیں۔ اس وقت آئی ٹی کا دور دورہ ہے اسلئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو اس سمت رہنمائی فراہم کی جائے۔صرف آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرکے ہم ملکی معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے ہیں۔