ہر چیز کو دیکھنے کے دو پہلو ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔ یہ آپ کی اندرونی صلا حیت پر منحصر ہے کہ آپ کسی چیز کا کون سا پہلو دیکھتے ہیں۔ اگر آپ کے سامنے ایک گلا س میں آدھے تک پانی بھرا ہوا ہے تو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدھا گلاخالی ہے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہوا ہے۔ بات دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے مگر یہ آپ کے اندرون کا پتہ دیتی ہے کہ آپ چیزوں کا کون سا پہلو دیکھتے ہیں۔اگر آپ نے آدھے گلاس کو بھرا ہوا دیکھا ہے تو آپ روشن پہلو دیکھنے والی شخصیت ہیں اور اگر آپ کو آدھا گلاس خالی نظر آیا تو آپ چیزوں کے تاریک پہلو کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ آپ کی نفسیات کے علاوہ آپ کے بچپن کا بھی عکاس ہے کہ آپ کس ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ اگر آپ کے والدین کو آپ کی تربیت کا موقع ملا ہے تو آپ کے سامنے چیزوں کا ایک روشن پہلو ہو گا۔ اور اگر آپ کے ہاں روزی روٹی کا بندوبست ایساہے کہ آپ کے والدین کو یہ موقع ہی نہیں ملا کہ وہ آپ کو
انسان کی پہچان بتا سکیں اور چیزوں کے روشن پہلو سے متعارف کروا سکیں تو آپ کے شخصیت میں چیزوں کے تاریک پہلو کو ہی دیکھنے کی عادت ہو جائے گی چاہے آپ کتنے ہی بڑے اور مشہور انسٹیٹیوٹ سے کیوں نہ پڑھے ہوں۔ اس لئے کہ سکول آپ کو تعلیم تو مہیا کرتا ہے مگر اُس کے پاس آپ کی تربیت کا وقت نہیں ہوتا او رجو نقوش آپ کے بچپن نے آپ کے ذہن پر کندہ کر دیئے ہیں وہ تا مرگ ساتھ جائیں گے۔ یہ جو مثبت سوچ اور معاملات کو مثبت انداز میں دیکھنے کی صفت ہے یہ زندگی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے تو دوسری طرف اگر کسی کی مزاج میں منفی پہلوؤں پر غور کرنا غالب ہے تو وہ ہمہ وقت مسائل سے دوچار ہی رہتا ہے۔ مثبت سوچ رکھنا اور معاملات کو مثبت اندا زمیں دیکھنا ماہرین کے نزدیک شخصیت میں مضبوطی لاتا ہے جبکہ منفی سوچ شخصیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس وقت ہمارے ارد گرد ماحول میں نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کی تعداد میں یہ جو بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر کوئی دوسروں کے متعلق زیادہ سوچ رہا ہے اور دوسروں پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دوسروں پر تنقید اور دوسروں کی کمزورویوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ہی مصروف رہنا لوگوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ اب ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دی جائے تو زندگی آسان ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خواہشات کی دوڑ میں ایک دوسرے
سے آگے نکلنے کی کوشش ترک کرنے میں آسانی ہے جبکہ خواہشات کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے سے زندگی مشکل ترین بن جاتی ہے۔اگر ہم میں قناعت اور صبر کے ساتھ ساتھ اپنے حال پر مطمئن رہنے کا گُر آجائے تو اس سے زندگی آسان بن سکتی ہے اور یہ جو ہمارے آس پاس نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔ اس کیلئے شرط صرف یہ ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ہلکان ہونے کی بجائے ایسا طرز زندگی اختیار کرنا ضروری ہے کہ اپنے اور دوسروں کیلئے آسانی فراہم کر سکیں۔ایک وقت تھا کہ پڑوس میں رہنے والوں کے ساتھ ایسا قریبی تعلق ہوتا تھا جیسے ایک خاندان کے افراد میں ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ دوسرے ساتھ رہنے والے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ زیادہ مطمئن اور خوشحال تھے۔