حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ابھی معاہدہ نہیں ہوا مگر شرائط پر پیشگی عمل کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں 2023 ء کا ضمنی بجٹ پیش کردیاہے جس میں جنرل سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جی ایس ٹی کی عمومی شرح میں ایک فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ پرتعیش اشیاء پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا ہے، ضمنی مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہماری حتی الوسع کوشش ہے کہ صرف ایسے ٹیکسز لگائیں جن کا براہ راست غریب اور متوسط طبقے پر کم از کم بوجھ آئے‘مگر خوردنی تیل، کپڑے دھونے کا پاؤڈر، بسکٹ اور ایسی دیگر اشیا ء پر جی ایس ٹی میں اضافہ دیکھ کر یہ کہنا کہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کو مہنگائی سے بچانے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے، زیب داستاں ہی ہے، ان ٹیکسوں کے نفاذ کو حالیہ دنوں بجلی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں کئے گئے اضافے کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام اقدامات سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جس سے غریب اور متوسط طبقہ زیادہ متاثر ہوگا۔ اگر ورلڈ بینک کا ڈیٹا دیکھیں تو گزشتہ 60 سال میں پاکستان میں سالانہ بنیاد پر افراط زر کی بلند ترین سطح 1974 ء میں دیکھی گئی تھی، جب یہ 26.6 فیصد تھی، جبکہ 2006 ء میں افراط زر کی اوسط شرح 9.5 تھی، اگر اعدادو شمار دیکھیں تو 1974 ء کے بعد افراطِ زر کی بلند ترین سطح 2008 ء میں 20.3 تھی، تاہم2021 کے بعد افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا، 2022 ء کے پہلے نصف میں یہ 13 فیصد پر رہا، جبکہ جون کے بعد سے بڑھنا شروع ہوا اور 2023 ء کا آغاز 27.6 فیصد کے ساتھ ہوا۔ اس وقت جب کہ مہنگائی ملکی تاریخ کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے، روپے کی قدر پست ترین سطح پر ہے، ملک میں پیداواری سرگرمیاں بدحالی کا شکار ہیں، صرف آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج پر بھروسہ کرنا معاشی تباہی کے عمل کو تیز کر دے گا۔ اگرچہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کئے بغیر چارہ نہیں تھا، مگر معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لئے مضبوط اور پائیدار معاشی بندوبست کی اشد ضرورت ہے، تاہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان ہمارے معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے، بحران اگرچہ مشکلات لے کر آتے ہیں، مگر انفرادی اور اجتماعی سطح پر بحرانوں سے اصلاح احوال کی جو ترغیب ملتی ہے، وہ عام حالات میں ممکن نہیں، سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا یہ قول ”بحران کو ضائع مت جانے دو“ ہمیں اپنی اجتماعی زندگی پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے، یہی موقع جو بظاہر ناقابل تصور مشکلات سے بھرپور ہے، ہمیں معاشی انتظامات کے نئے طریقے سکھا سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، یا ماضی کی غلطیاں ہی دہراتے رہیں گے؟۔