چین اور امریکہ میں تلخی بڑھنے لگی

چین اور امریکہ میں تلخی ابھی ختم نہیں ہوئی اور دونوں ممالک میں تازہ ترین کشیدگی امریکہ کی طرف سے چینی غبارے اور بعد ازاں کئی دیگر نامعلوم اجسام کو مار گرانے کے بعد بڑھی۔اب صورتحال یہ ہے کہ صدر جو بائیڈن چینی صدر شی جن پنگ سے اس مشتبہ غبارے کے بارے میں بات کریں گے جسے انہوں نے اس ماہ مار گرانے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا۔صدر بائیڈن نے  گزشتہ روز جاسوسی کرنے والے غبارے اور ان تین نامعلوم محو پرواز اشیاء کے بارے میں، جنہیں انہوں نے گرانے کا حکم دیا تھا، تبصرہ کرتے ہوئے اپنی انتظامیہ کے منصوبوں کو اجاگر کیا۔صدر نے کہا کہ مجھے توقع ہے صدر شی کے ساتھ اس بارے میں بات چیت ہو گی اور مجھے امید ہے کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے، لیکن میں اس غبارے کو مار گرائے جانے پر کوئی معذرت نہیں کروں گا۔صدربائیڈن نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے کہ جب کہ مار گرائے جانے والے مشتبہ چینی غبارے کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے اور گرائے گئے باقی تین نامعلوم غباروں کا ملبہ ڈھونڈا جا رہا ہے۔صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ارکان کا خیال ہے کہ گرائی گئی باقی تین اشیا کا تعلق غالبا ًپرائیویٹ کمپنیوں، یا تفریحی اداروں یا موسم کا مطالعہ کرنے والے تحقیقی اداروں یا دیگر سائنسی شعبوں سے تھا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ فضا میں نامعلوم اشیا ء کی نگرانی، ان کا پیچھا کرنے اور انہیں مار گرانے کے لیے سخت ضابطے بنا رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک محکمانہ ٹیم تشکیل دیں جو چینی غبارے اور تین دیگر اشیا کو مارگرائے جانے کے بعد اس سلسلے میں امریکی طریقہ کار کا جائزہ لے گی دوسری طرف چین نے دو امریکی فوجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے تائیوان کو ہتھیار فراہم کرنے والی دو امریکی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن اور ریتھیون پر تجارت اور سرمایہ کاری کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہ کمپنیاں فوجی سازو سامان تیار کرتی ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ تائیوان اس کا علاقہ ہے۔چین کی وزارت تجارت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ ان کمپنیوں کو چین میں سامان درآمد کرنے یا ملک میں نئی سرمایہ کاری کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ لاک ہیڈ مارٹن یا ریتھیون پران پابندیوں کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔امریکہ نے بھی چین کو ملٹری سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی زیادہ تر فروخت پر پابندی لگا رکھی ہے، لیکن کچھ فوجی کانٹریکٹرز کے ایرو اسپیس اور دیگر شعبوں میں شہری کاروبار بھی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے صدر شی جن پنگ کی حکومت نے جزیرے کے قریب لڑاکا طیارے اور بمبار طیارے اڑا کر اور سمندر میں میزائل داغ کر، تائیوان کو دھمکانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلقات نہیں ہیں لیکن وہ وسیع تجارتی اور غیر رسمی روابط رکھتا ہے۔ واشنگٹن وفاقی قانون کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہے کہ جزیرے کی حکومت کے پاس اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہوں۔امریکہ تائیوان کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔