یوں تو یہ ہر شہر کا ہی مسئلہ ہے اور اس میں قصور حکومتوں کا کم اور شہریوں کا زیادہ ہوتا ہے مگر جب مسئلہ بن جاتا ہے تو اسکی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال دی جاتی ہے‘حکومت صفائی متعلق یہ توکر سکتی ہے کہ وہ کوڑے کے ڈرم گلی کے موڑ پر رکھ دے مگر یہ نہیں کر سکتی کہ گھر گھر جاکر کوڑا اکٹھا کرے‘اگر دیکھا جائے تو کسی بھی شہر میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا شہری حکومت اس بات کا اہتمام کرتی ہے کہ شہر کے مکین اپنے گھروں کاکوڑا ایک کوڑے دان میں ڈالیں جسے ضلعی حکومت کے کار پرداز اٹھالیں اور پھر اس کوڑے کے خاتمے کا بندوبست کیا جائے‘مگر شہر بڑا ہو یا چھوٹا دیکھا یہ گیا ہے کہ شہری کوڑا کچرا کنڈی میں ڈالنے کی بجائے اسکے قریب ادھرادھر پھینک کر چلے جاتے ہیں۔محلوں میں یہ بندوبست بھی کیاجاسکتاہے کہ شہری اپنے گھر کے کوڑے کو اپنے گھروں کے سامنے ایک طرف رکھ دیں اور کمیٹی یا ضلعی انتظامیہ کے خاکروب آکر اسے اٹھا کر مخصوص جگہ پرلے جائیں۔ عموماً چھوٹے شہروں میں یہی کچھ کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود کچھ لوگ اپنے گھروں کا کوڑا لے جاکر کوڑے دانوں میں ڈالتے ہیں مگر اس میں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ کوڑے کو کوڑے دان میں ڈالنے کی بجائے اس کے پاس ادھر اُدھر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کوڑے دان عموماً گلی کے نکڑ پر یا شہر کی سڑکوں کے کنارے مخصوص جگہوں پر رکھے جاتے ہیں اور جو لوگ کوڑے دان کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اپنا کوڑا کوڑے دان کے اندر ڈالنے کی بجائے اس کے پاس ادھر اُدھر ڈالتے ہیں تو اس سے گلی یا سڑک اس کوڑے سے بھر جاتی ہے اور اگر ایک دن بھی خاکروب یا شہری انتظامیہ کی گاڑی نہ اٹھائے تو کوڑا ایک ڈھیرکی شکل اختیارکرلیتا ہے اورپھر سارا شہر گندگی کا ڈھیر دکھائی دینے لگتا ہے‘اور پھر یہی شہری جو اس گندگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ شور مچانے لگتے ہیں کہ شہری حکومت صفائی کا اہتمام نہیں کرتی‘ صفائی کا اہتمام صرف شہری حکومت کا ہی کام نہیں ہوتا بلکہ شہری بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اپنے کوڑے کرکٹ کو مخصوص جگہوں پر رکھے کوڑا دانوں کے اندر ڈالیں‘ایک اور مرض جو ہمارے شہریوں کو لاحق ہے وہ یہ کہ لوگ اپنے کوڑے کرکٹ کو اپنے گھروں کے آگے سے گزرتی نالیوں یا بڑی سڑکوں کے کنارے بنے نالوں میں ڈال دیتے ہیں‘اس سے یہ ہوتا ہے کہ نالیاں اور نالے بند ہوجاتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو پانی بجائے نالوں میں بہنے کے سڑکوں اور گلیوں میں نکل آتا ہے اور یوں ایک بڑے نقصان کا سبب بنتا ہے اور جب پانی گھروں میں داخل ہوتاہے تو لوگ چیخنا شروع ہو جاتے ہیں اور حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ حکومت کے کسی بھی اہلکار نے وہ کو ڑے کے تھیلے نالیوں یا نالوں میں نہیں ڈالے ہوتے‘جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اور ملک میں انڈسٹری کے فقدان کی وجہ سے دیہات کی آبادی شہروں کو منتقل ہو رہی ہے اور جب لوگ شہروں کو نقل مکانی کرتے ہیں تو شہر میں انتظامی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں‘نق مکانی کرنے والوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہیں گھس جاتے ہیں‘اس سے جو انتظامیہ کے کرنے کے کام ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں آبادیوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی‘ پانی کی فراہمی‘پانی کی نکاسی کا بندوبست وغیرہ سارے ہی کنٹرول سے باہرہوجاتے ہیں اور یہی آبادیاں جو عموماًکچی آبادیاں کہلاتی ہیں شہر کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتی ہیں‘اب اگر حکومت ان آبادیوں کو مسمارکرتی ہے تو پھر بھی ہنگامے شروع ہوجاتے ہیں بڑے شہروں میں تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے‘کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا کچرے کا شہر بن چکا ہے‘ پہلے تو کراچی میں بہت کم بارشیں ہوتی تھیں اسلئے کراچی کا کچرا کوئی اتنا کھل کے مسئلہ نہیں بنا تھامگر گزشتہ بارشوں نے تو کراچی کو اتنا اُجاگر کر دیا ہے کہ اب تو یہ دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے‘ادھر کراچی تین چار حکومتوں کاشہر بن چکا ہے اور اس میں کوڑا اٹھانے کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہے‘مگر اصل قصور تو عوام ہی کاہے نا۔ ادھر اس گندگی کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک کے تھیلے ہیں جو اس قدر عام ہو گئے ہیں اور شہریوں نے اس کی اتنی عادت ڈال لی ہے کہ اب ماچس کی دوڈبیاں بھی وہ پلاسٹک کے تھیلے کے بغیر نہیں لیتے اور یہ پلاسٹک کے تھیلے ڈسپوز آف نہیں ہو سکتے جو گندگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔