وقت کے تقاضوں کا احساس

صدر مملکت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے بظاہر ابہام ختم کرنے کی کوشش کی ہے  تاہم اس کے باوجود معاملات پوری طرح سلجھے نہیں۔سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا تاہم اتنا ضرور ہے کہ جس نازک موڑ پر اس وقت معیشت ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر ان حالات سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف نے گرفتاری پیش کرنے کی جو مہم شروع کی ہے اس سے بھی سیاسی ہلچل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ دوسری طرف، حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی تمام شرائط قبول کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ قرض معاہدے کی بحالی کی کوشش جاری ہے، مگر اس کے اثرات پہلے سے مہنگائی میں دبے شہریوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ توانائی کی قیمتیں عام طور پر عوام کے لئے اونٹ پر آخری تنکا کا ثابت ہوتی ہیں، چنانچہ توانائی اور خوراک کی قیمتوں کے فیصلوں میں سیاسی دانشمندی سے کام لیا جانا ضروری ہے،اور اس کی بہتر صورت یہی ہوسکتی ہے کہ فیصلے اتفاق رائے سے ہوں، مگر ہمارے ہاں سیاسی قیادت اس وقت ایک دوسرے سے فاصلے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جب دیوالیہ ہونے کے خطرات حقیقی صورت اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں، سیاسی قیادت تمام اختلافات بھلا کر ملک و قوم کے مستقبل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ طے کرے کہ ملک و قوم کے مفاد میں اس مشکل وقت سے نکلنے کیلئے کونسے متفقہ اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں اس میں تو اب کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کا ذمہ دار کوئی ایک حکومت یا سیاسی جماعت نہیں بلکہ عرصہ درازسے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا ہے اور ہر دور حکومت میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے گئے۔اگر ہم حقیقی معنوں میں ان قرضوں کو پیدواری صلاحیت بڑھانے پر صرف کرتے یا پھر اس کے ذریعے اپنی زراعت کو ترقی دیتے تو یقینا اس وقت ہم مزید قرض حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگے رہتے۔اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ جو ہم نے قرض لئے اسے پہلے سے موجود قرض کے اتارنے کیلئے استعمال کیا اور باجود اس کے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا گیا ہے۔ہمارے سامنے کئی ممالک کی مثالیں ہیں جنہوں نے بدلتے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام کے ذریعے معاشی میدان میں اقوام کا مقابلہ کرنے کیلئے ماہر ین پیدا کئے اور آج وہ باوجود اس کے کہ بین الاقوامی سطح پر کساد بازاری اور معاشی مشکلات کا دور دورہ ہے وہ ممالک بدستورترقی کا سفر طے کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسی ملک چین سے کچھ سیکھنا چاہئے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایسی ترقی کی مثالیں قائم کیں کہ دنیا حیران ہے، اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت سے نکال کر خوشحال زندگی میں داخل کرکے چین نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ جیس کے بارے میں دیگر اقوام ابھی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ قدرت نے ہمیں بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ایسے میں ضرورت ہے تو ان وسائل سے فائدہ اٹھانے اور ان کے ذریعے ملکی معیشت کو استحکام دینے کی۔سیاست پھر بھی ہو سکتی ہے، آپس کے اختلافات پر پھر بھی بات ہو سکتی ہے  تاہم اگر ملک معاشی طور پر اس مقام پر پہنچے جہاں سے پھر اٹھنا ممکن نہ رہے تو اس کا سب کو نقصان ہوگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھ کر موجودہ مشکل ترین دور سے ملک کو نکالنے اور اسے ایک مستحکم اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیں، یہ وقت کا تقاضابھی ہے اور قومی قیادت کی ذمہ داری بھی۔ اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آپس میں مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔