تائیوان کے مسئلے پر چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ آضافہ ہورہا ہے اور اس وقت اس تنازعے کے باعث نہ صرف اس مخصوص علاقے بلکہ پوری دنیا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، دوسری طرف یوکرین کا تنازعہ بھی ختم ہونے کا سمٹنے کی بجائے پھیلتا جا رہا ہے اور اس میں نیٹو امریکی کی شمولیت تو پہلے سے ہے۔ اب چین کی شمولیت کا بھی خطرہ اس طرح پیدا ہوگیا ہے کہ اس نے روس کے ساتھ تعاون مزید بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ جس میں فوجی تعاون سرفہرت ہے۔جہاں تک چین اورتائیوان کے مسئلے کا تعلق ہے توحال ہی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے ملک کی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ تائیوان پر حملہ کرنے کے لیے 2027تک تیار رہیں، اس ضمن میں وہ یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کے تجربے کا مشاہدہ کر رہاہے۔برنز نے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ چاہے فوجی تنازع ناگزیرنہ بھی ہو تب بھی امریکہ کو تائیوان پرقبضہ کرنے کی شی کی خواہش کوبہت سنجیدگی سے لینا چاہئے‘ نے مزید بتایاکہ ہم جانتے ہیں اوراسے عام بھی کیا گیا ہے کہ صدر شی نے پیپلز لبریشن آرمی کی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2027 تک تائیوان پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے 2027یا کسی اورسال حملہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں کم از کم ہمارا اندازہ یہ ہے کہ صدر شی اوران کی فوجی
قیادت کو فی ا لوقت شک ہے کہ آیا وہ اس حملے کی کامیاب صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔تائیوان اورچین 1949 میں خانہ جنگی کے بعد الگ ہو گئے جس کا خاتمہ کمیونسٹ پارٹی کے چینی سرزمین پر کنٹرول کے ساتھ ہوا۔ اب یہ خود مختار جزیرہ ایک خودمختار ملک کی طرح کام کرتا ہے تاہم ابھی تک اسے اقوام متحدہ یا کسی بڑے ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ 1979میں، صدر جمی کارٹر نے بیجنگ کی حکومت کو باضابطہ طورپرتسلیم کیا اورتائیوان کے ساتھ دو ملکوں کے درمیان کی سطح کے تعلقات منقطع کر دئیے۔ بعد میں کانگریس نے تائیوان ریلیشن ایکٹ پاس کیا، جس سے تعلقات کو جاری رکھنے کے لئے ایک بینچ مارک بنایا گیا۔تائیوان کو بیجنگ کی طرف سے طاقت کے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے پیش نظر جزیرے کی جمہوریت قائم رکھنے کے لئے سرکاری سطح پر مختلف شکلوں میں امریکی حمایت حاصل ہے جب کہ بیجنگ تائیوان کو اپنے علاقے کا حصہ قرار دیتا ہے۔صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر چین نے حملہ کرنے کی کوشش کی توامریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں یہ واضح کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ واشنگٹن تائیوان کی حیثیت کو پرامن طور پر حل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ برنز کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے صدرولادیمیر پوٹن کے اس ملک پرحملے کے بعد یوکرین کے لئے امریکی اور یورپی اتحادیوں کی حمایت چینی حکام کے لئے فی الحال ممکنہ رکاوٹ کے طور پر کام کر سکتی ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ تائیوان پر ممکنہ حملے کے خطرات بڑ ھ رہے ہیں۔اس تمام تناظر میں یہ حقیقت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ امریکہ چین کو تائیوان کے مسئلے میں الجھانا چاہتا ہے تاکہ اس کی ترقی کے سفر کو سست کیا جا سکے تاہم دوسری طرف چین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکی سازش کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔