وقت گزرنے کے ساتھ موسموں کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور سردیاں اگر سخت سرد ہیں تو گرمی میں بھی ریکارڈ گرمی پڑتی ہے۔ اس دوران لگتا ہے یا تو سردی رہ جائے گی اوریا گرمی، بیچ کے جو موسم ہیں وہ یکسر ختم ہونے کا خطرہ ہے۔جنوبی ایشیاء میں موسمیاتی تبدیلی کا سلسلہ تیز ہے اور فروری 1901 کے بعد سے بھارت میں جب سے موسم کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے گرم ترین مہینہ بن گیا ہے جس کے پیش نظر مارچ اور مئی کے دوران درجہ حرارت معمول سے بلند رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔اور یہ کچھ دیگر پڑوسی ممالک میں بھی سامنے آنے لگا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیاء میں مارچ اور مئی کے درمیان گرمی کی لہریں آنے کا امکان ہے، ماہرین کایہ بھی کہنا ہے کہ مسلسل دوسرے سال گرمی کی لہر سے گندم، خوردنی تیل کے بیج پیدا کرنے والی فصل اور چنے کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور ان علاقوں میں غذائی قلت کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان پہلے ہی زیادہ متاثر ممالک میں سے ہے اور گزشتہ مون سون میں جس طرح کے تباہ سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا خطرہ آنے والے مون سون میں بھی سر پر منڈلاتا رہے گا۔ اسی طرح زیادہ درجہ حرارت کے باعث گرمیوں میں بجلی کی مانگ اس کی رسد کے مقابلے میں بڑھ سکتی ہے۔ایسے حالات میں کہ جب پہلے ہی بھر پور لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، آنے والے موسم گرما میں یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جہاں ایک طرف توانائی کی کمی کے حوالے سے موسم گرما کیلئے تیار کی جائے وہاں غذائی قلت کا سدباب بھی ضروری ہے۔ جہاں تک توانائی کی کمی سے نمٹنا ہے تو شمسی توانائی سے بھر پوراستفادہ کرکے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ شمسی توانائی کے آلات پر خصوصی رعایت دی جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ شمسی توانائی سے استفادہ کرسکیں اور اس کے نتیجے میں نیشنل گرڈ پر دباؤ میں کمی ہوگی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ اس وقت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک غیر روایتی توانائی کے ذرائع سے استفادہ کررہے ہیں جن میں ہوا اور سورج کی روشنی قابل ذکر ہیں۔ چین نے اپنی بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ غیر روایتی طریقوں سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس پر تیزی کے ساتھ عمل بھی کررہاہے۔ پاکستان اس سلسلے میں چین کے تجربے سے استفادہ کرسکتا ہے۔اس طرح ماہرین نے کیونکہ آنیوالے موسم گرما میں شدید گرمی کی پیش گوئی کردی ہے اس لئے حکومتی سطح پربھی اور عوامی سطح پر بھی، اس حوالے سے تیاری ضروری ہے۔ خاص کر صحت کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں پہلے سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ وقت آنے پر غیر متوقع مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔غذائی قلت کے مسئلے کا بھی ابھی سے توڑ کرنا ضروری ہے، بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ جب تک مسئلہ گھمبیر نہ ہوجائے اس کے حل اور تدارک پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح آنے والے مون سون میں سیلابوں کے خطرات کے ضمن میں بھی ضروری ہے کہ ابھی سے منصوبہ بندی کی جائے۔کیونکہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک اٹل حقیقت ہے اور جس طرح کے حالات کا گزشتہ مون سون میں سامنا ہوا ہے۔ دوبارہ بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا بعید نہیں۔