حیاتیاتی تنوع

پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور کتوں کے کاٹنے، جانوروں سے بدسلوکی اور ریبیز کے واقعات ہر دوسرے دن شہ سرخیوں میں آتے ہیں۔ آوارہ کتوں کی تعداد کتنی ہے اگرچہ اِس حوالے سے درست قومی اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن ملک کا ہر شہر اِس مسئلے سے کسی نہ کسی طور متاثر ہے۔ جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں آوارہ کتوں کی آبادی تیس لاکھ سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ہر سال آوارہ کتوں کے کاٹنے کے اوسطاً 10 لاکھ واقعات پیش آتے ہیں۔قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی ”قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور“ کے حالیہ اجلاس میں شہریوں کی جانب سے اُن درخواستوں پر غور ہوا ہے‘ جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی آبادی‘ سڑکوں پر آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق تھیں اور اِن میں کہا گیا تھا کہ آوارہ کتوں کی وجہ سے معمولات زندگی اور فلاحی سرگرمیاں بھی متاثر ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے سامنے یہ معاملہ پہلی مرتبہ پیش نہیں ہوا بلکہ اِس سے پہلے بھی زیرغور آ چکا ہے۔ متعلقہ حکومتی ادارے کے ذمہ داروں کو طلب کرنے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ  بائیس ہزار سے زائد کتوں کا علاج کیا جا چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں ریبیز اور ممکنہ طور پر دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسین دینے کے بعد اُنہیں رہا کیا گیا ہے اور یوں مجموعی طورپرمجموعی طور پر بارہ سو کتوں کو رہا کیا گیا۔ کمیٹی نے کتوں کے مزید مراکز قائم کرنے کی تجویز دی جبکہ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ آوارہ کتوں کی زندگی سے زیادہ انسانی زندگی اہم ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ انسانوں کی زندگی زیادہ اہم جبکہ ہم زمین جانداروں کی زندگیاں کم اہم ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا مؤقف ہے جس طرح کرہئ اَرض پر انسانوں کا حق ہے بالکل اِسی طرح دیگر جانداروں کا بھی حق ہے۔ جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ انسانی برادریاں اپنے درمیان جانوروں کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ اگرچہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن ’اے سی ایف‘ اور جانوروں کے حقوق کے دیگر گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ ہدف خطرناک بیماریوں کے خلاف کتوں کو ویکسین دے کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے لئے کتوں کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بہت سے ممالک میں‘ انسانوں اور جانوروں کی آبادی ساتھ ساتھ بغیر کسی تلخی کے رہتی ہے اور وہاں ایسی کوئی بھی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ مغربی ممالک میں آوارہ کتوں‘ بلیوں اور دیگر جانداروں کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور حکومت و عوام جانوروں کی حفاظت و دیکھ بھال کرنے میں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں جانوروں کے حقوق سے متعلق اِس قسم کے رویئے دیکھنے میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کی مذکورہ قائمہ کمیٹی نے کتوں کے مراکز اور اُن کے لئے مزید پناہ گاہیں تعمیر کرنے کی تجویز دی ہے۔ کتوں کو گولی مار کر مارنا یا اُنہیں زہر دینا‘ مسئلے کا حل نہیں اور اب تک اِس طرح کے اقدامات سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ آوارہ کتوں سے نمٹنے کے لئے ایک زیادہ بہتر اور ماحولیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے راستے (آپشن) کی تلاش کرنا ہوگی اور اس مقصد کے حصول کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جدت طرازی کی جائے‘ لوگوں کو جانوروں کے حقوق کے بارے میں زیادہ تفصیل سے آگاہ کیا جائے اور اُنہیں سکھایا جائے کہ وہ کس طرح ماحول دوست بن سکتے ہیں اور کس طرح اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہم زمین جانداروں کی زندگی اور حقوق کا بھی احترام کریں۔ جانور شعور نہیں رکھتے لیکن انسان شعور رکھتے ہیں اور اِسی شعور کی بنیاد پر انسانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہم زمین مخلوقات کا تحفظ اور دیکھ بھال کریں۔ ہم زمین جانداروں میں صرف جانور (حشرات الارض) ہی نہیں بلکہ پودے بھی شامل ہیں جن کی حفاظت اور دیکھ بھال نہ بھی کی جائے تو اُنہیں کم سے کم نقصان پہنچانے سے الگ رہنے ہی میں دانشمندی ہے۔