موسمیاتی تبدیلی اس وقت سنگین چیلنج کی صورت میں عالمی برداری کے سامنے موجود ہے اور یہ خوش آئند امر ہے کہ اس حوالے سے ممالک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگیا ہے اور پچھلے دنوں جہاں سمندروں کو آلودگی سے بچانے کیلئے عالمی معاہد ہ ہوا وہاں اقوام متحدہ نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ اس نے آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک وسیع خلا کو پر کرنے کی کوشش کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے اور وہ ہے گرین ہاؤس گیسوں کی معیاری ریئل ٹائم ٹریکنگ۔یعنی یہ معلوم کرنا کہ لمحہ موجود میں گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسیں کس مقدار میں خارج ہو رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے ایک نیا گلوبل گرین ہاؤس گیس مانیٹرنگ انفراسٹرکچر پیش کیا ہے جس کا مقصد زمینی سیارے کی گرمی کی آلودگی کی پیمائش کے بہتر طریقے فراہم کرنا اور پالیسی کے انتخاب سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے‘ڈبلیو ایم او کا نیا پلیٹ فارم خلا ء اور سطح زمین پر مبنی مشاہداتی نظام میں ربط قائم کرے گا، اور اس بارے میں غیر یقینی صورت حال کو واضح کرنے کی کوشش کرے گا کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کس جگہ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔اس سے ہمیں زمین کے ماحول کی تبدیلی کے بارے میں بہت تیز ی سے اور درست ترین ڈیٹا حاصل ہو سکے گا۔ڈبلیو ایم او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی پیمائشوں سے معلوم ہوتا رہے گا کہ ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں ریکارڈ حد تک زیادہ ہے۔واضح رہے کہ تین بڑی گرین ہاؤس گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ ہیں۔ ان میں سے کاربن ڈائی اکسائیڈ آب و ہوا پر تقریبا ً66 فیصد گرمی کے اثرات ڈالتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2021 تک کاربن ڈائی اکسائیڈ کی سطح میں اضافہ گزشتہ دہائی کے مقابلے میں اوسط شرح سے زیادہ تھا، اور پیمائش شروع ہونے کے بعد سے میتھین گیس کے اخراج میں ہر سال بلند ترین اضافہ دیکھا گیا۔2015 کیآب و ہوا کی تبدیلی کے پیرس معاہدے میں دنیا بھر کے ممالک گلوبل وارمنگ کو کافی نچلی سطح پر لانے پر راضی ہو گئے تھے،جو 1850 اور 1900 کے درمیان ریکارڈ کی جانے والی سطح سے دو ڈگری سیلسیس تک اوپر بلکہ اگر ممکن ہوا تو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ تاہم معاہدے کے تحت ضرورت اس بات کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے تخفیف کے اقدامات مضبوط سائنسی بنیادوں پر کئے جائیں۔دوسری طرف ابھی بھی اس بارے میں غیر یقینی صورت حال ہے کہ خاص طور پر سمندر، زمینی حیاتی کرہ اور نقطہ انجماد سے نیچے رہنے والی سطح کا کاربن کے اخراج میں کیا کردار ہے۔لہٰذا ہمیں ایک مربوط نظام کے تحت گرین ہاؤس گیس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔اور دیکھاجائے تو اس حوالے سے وقت کم اور مقابلہ سخت والی صورتحال کاسامنا ہے۔ اگر عالمی برداری نے کچھ کرنا ہے تو وہ تیزی سے کرنا ہوگا کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے اور گزشتہ سال مون سون کے دوران جن سیلابوں کا ملک کو سامنا رہا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اتنی زیادہ تھی کہ آج تک ان علاقوں میں معمول کی زندگی بحال نہیں ہو سکی جو سیلاب سے متاثر تھے۔ اس طرح پاکستان کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے عالمی برادری کے اٹھائے گئے اقدامات اور معاہدات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔