لاکھوں سیلاب متاثرین کواب بھی امداد کی ضرورت

سیلاب کوکئی مہینے گزرنے کے بعد اب بھی بحالی کے حوالے سے امداد کی ضرورت باقی ہے اوربہت سے علاقوں میں اب بھی زندگی معمول پر نہیں آسکی ہے۔ کیونکہ جس طرح کے سیلابوں سے گزشتہ مون سون میں وطن عزیز کا سامنا رہا ہے وہ کوئی معمولی سیلاب نہیں تھے بلکہ اس نے ملک کے بڑے حصے کو متاثر کیا  اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا آزالہ محض ملکی امداد سے ممکن نہ تھا۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد چھ ماہ کے عرصے میں امدادی کارکن 70 لاکھ سے زائد افراد کو خوراک اور دوسری ضروری اشیا فراہم کر چکے ہیں۔ شدید برساتی موسم کے نتیجے میں آنے والے ان غیر معمولی سیلابوں کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھااور تقریباً 17 سو ہلاکتیں بھی ہوئیں تھیں۔سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور انفرا سٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا۔80 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے اور 13 ہزار زخمی ہوئے۔ یہ اعدادوشمار پاکستان میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر نے جاری کئے ہیں۔ملک میں آنے والی شدید طغیانی سے تقریباً دس لاکھ مویشی ہلاک ہو گئے۔ 44 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا اور 22 لاکھ مکانات، اسپتال، سکول، پانی اور حفظان صحت کی تنصیبات، سڑکیں، پل اور سرکاری عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔حکومت کی قیادت میں جاری امدادی سرگرمیوں میں اقوام متحدہ اور اس کے حلیف اداروں نے مدد جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ووجارک نے  گزشتہ روز بتایا کہ ہم کمیونیٹیز کی بحالی، ان کے روزگار کے مواقع دوبارہ پیدا کرنے اور آئندہ برساتی موسم کے لئے انہیں تیار کرنے میں حکام کی مدد کر رہے ہیں۔تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امداد کے لئے 816 ملین ڈالر کی مدد کے لئے اپیل کی گئی تھی جس میں صرف30 فیصد فنڈز ہی دستیاب ہوئے ہیں اور بچوں کے لئے غذائی قلت کی شرح بدستور تشویش کا باعث ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ اور حلیفوں نے پاکستان میں اب تک دس لاکھ سے زائد لڑکے اور لڑکیوں اور تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ ماں تک رسائی حاصل کی ہے اور زندگی بچانے والی غذا کی فراہمی سے متعدد جانوں کو بچا لیا گیا ہے۔ تاہم بچوں کی نشو ونما کے لیے فنڈز کی اپیل کا محض ایک تہائی ہی مل سکا ہے جس کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ نو عمر افراد کو غذائی قلت کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے۔اقوام متحدہ کا صحت کا ادارہ یا ڈبلیو ایچ او، 30 لاکھ افراد کو سہولتیں فراہم کر چکا ہے جب کہ خوراک اور زراعت کی تنظیم نے 70 لاکھ پاکستانیوں کو مدد فراہم کی ہے۔ تاہم 40 لاکھ افراد کو بدستور خطرے کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے ستمبر 2022 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد سیلاب کے المیے سے متاثرہ افراد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا تھا۔ وہ اس المیے کوآب و ہوا کی تباہی کا نام دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی ملک بھی اس تباہی کا مستحق نہیں ہے اور پاکستان جیسے ملک خاص طور پر ان ممالک میں شامل ہیں جن کا عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے میں کو ئی حصہ نہیں ہے۔عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں خشک سالی، قحط، سمندری طوفانوں، شدید بارشوں اور سیلابوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں جن سے ہر سال انسانی جانوں کے زیاں سمیت اربوں ڈالر مالیت کی املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں بڑھتے ہوئے اضافے کی وجہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہے۔کاربن گیسوں کے اخراج کی زیادہ تر ذمہ داری صنعتی اور ترقی یافتہ ملکوں پر عائد ہوتی ہے، جب کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے نقصانات زیادہ تر ان غریب اور کم ترقی یافتہ ملکوں کو بھگتنے پڑتے ہیں جن کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے اور بہت سے ممالک میں جہاں بر ف باری کم ہوتی تھی وہاں پر برف باری کے ریکارڈ قائم ہوئے اور جہاں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں وہاں پر خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ موسموں میں شدت آنے سے اگر کوئی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے تو وہ زراعت ہے۔ ایسے میں وہ ممالک کامیاب ہیں جنہوں نے بدلتے حالات کے تقاضوں کوسمجھا اور ان کے  مطابق پالیسیوں کو تشکیل دیا۔ پاکستان میں بھی گزشتہ سیلابوں سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہو اہے اور ہنوز اس کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار وہ ممالک ہیں جنہوں صنعتی ترقی کیلئے ماحول کو پراگندہ کیا اور کاربن ڈائی اکسائڈ سمیت دیگر مضر ماحول گیسوں کی پیداوار میں اضافے سے غفلت برتی۔ ان ممالک نے صنعتی ترقی کے نتیجے میں کمائی تو بہت کی تاہم ان کے ان ایسے اقدامات کے نتیجے میں ماحول کو جو نقصان پہنچا وہ ناقابل تلافی ہے اور آج اس کا نتیجہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب  پیش آنے والی مشکلات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔اس حوالے سے مشترکہ کوششوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں خاص طور پر وہ ممالک زیادہ حصہ لیں جو ان عوامل  کے ذمہ دار ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنے۔