صحت کی تحقیق سے متعلق ایک ادارے نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے،جس کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چند ہفتوں کے دوران نمونیا کے مریضوں کی تعداد میں 300 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نمونیا کی شکایت کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں آئے، جبکہ نجی ہسپتالوں میں علاج کرانے والے اس کے علاوہ ہیں، اگر دیکھا جائے تو یہ اعداد وشمار تشویشناک ہیں، ماہرین صحت کے مطابق نمونیا کے کیسوں میں ہوشربا اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے، چونکہ یہ پھیپھڑوں کی بیماری ہے اور آلودہ فضا میں سانس لینے سے ہی اس بیماری کے اثرات میں اضافہ ہوتا ہے، نمونیا کو پانچ سال سے کم عمر بچوں میں انفیکیشن کے باعث موت کی سب سے بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے، نمونیا اور انفلوئنزا کو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی جہاں علاج معالجے کی جدید اور بہترین سہولیات میسر ہیں، موت کی آٹھویں بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے، اس بیماری سے بچا ؤکے لئے فلو ویکسین کو موثر سمجھا جاتا ہے، حکومت کا فرض ہے کہ نمونیہ کے کیسوں میں ہوشربا اضافے پر قابو پانے کے لئے سرکاری اسپتالوں میں فلو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے۔ یہ صورتحال صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں فضائی آلودگی اور اس کے مضر اثرات یکساں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، شہر میں جابجا کوڑے کے ڈھیر، جن میں پلاسٹک کئی شکلوں میں پایا جاتا ہے اور یہ ڈھیر اس وقت زہر قاتل بن جاتا ہے،جب کوئی ”عقلمند“اس ڈھیر کو آگ لگا دیتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ کچرے اور کوڑے کے پھیلا ؤاور خصوصاً آگ لگانے پر پابندی لگائی جائے، اس سے زیادہ ذمہ داری شہریوں کی ہے کہ وہ گھر کے کوڑا کرکٹ کو کھلی جگہوں پر نہ پھینکیں اور ایسے ڈھیروں کو آگ بالکل نہ لگائیں، بہتر یہ ہے کہ احتیاط کے طور پر ماسک پہن کر گھر سے باہر نکلیں، بالخصوص بچوں کو ماسک پہنے رکھنے کی عادت ڈالیں، کیونکہ نمونیا جیسی بیماری اور پھیپھڑوں کا انفیکشن بچوں کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نمونیا کو کورونا کی ہی طرح خطرناک سمجھنا اور اس سے بچا ؤکے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کو اس حوالے سے آگاہی اور شعور عام کرنے کی خاطر مہم چلانی چاہیے، زیادہ موثر طریقہ صفائی اور آلودگی کے بارے میں دین اسلام کے احکامات اور اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، اگر اس قسم کے روزمرہ کے مسائل پر اسلامی احکامات کی بات کی جائے تو معاشرے میں معاشرتی سدھار اور صحت عامہ کے متعلق بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں، لیکن حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ پر ہے،کہ ہسپتالوں میں فلو ویکسین فراہم کرے اور وسیع پیمانے پر ویکسی نیشن شروع کرے ورنہ خدشہ ہے کہ جس تیزی سے نمونیا پھیل رہا ہے، یہ کورونا سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔اب ایک اہم بین الاقوامی پیش رفت کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کو چین کی بڑی سفارتی کامیابی قرا ر دیا جارہاہے۔ ایک طرف امریکہ ہے کہ جس کے مفادات خطے میں ممالک کے درمیان کشیدگی اور جنگوں سے وابستہ ہیں اور دوسری طرف چین ہے جس کے مفادات خطے میں امن اور تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی ایک طرح سے امن کی جیت اور جنگ کی ہار ہے۔سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ تک مذاکرات ہوئے تھے۔ طے پانے والے معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کا دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا اور ممالک کی خود مختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اچھے ہمسایہ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک اجلاس منعقد کریں گے۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس معاہدے کو بات چیت کی جیت، امن کی فتح اور ایک ایسے وقت میں اہم خوشخبری کہا جب دنیا انتشار کا شکار ہے۔یہ معاہدہ بلا شبہ چین کی سفارتی فتح ہے اور ساتھ ہی یہ اس امر کی بھی نشانی ہے کہ خطے کی سیاست پر امریکہ کی بجائے اب چین کا غلبہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ نے کہا کہ ایک نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر، چین نے میزبان کے طور پر اپنے فرائض پورے کیے ہیں۔ بیجنگ دنیا کے گرما گرم مسائل سے نمٹنے کے لئے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کے طور پر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔وانگ نے کہا کہ دنیا کو صرف یوکرین کا مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے۔اب جہاں تک امریکہ کے رد عمل کوتعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے ا س معاہدے سے دلی خوشی تو ہر گز نہیں۔وائٹ ہاس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے۔پاکستان نے بھی ایران سعودی معاہدے کو سراہا ہے اور وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔چین کی تعریف کرتے ہوئے، پاکستان نے بیان میں کہا کہ ہم اس تاریخی معاہدے میں چین کی قیادت کی بصیرت اور کردار کو سراہتے ہیں۔ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ خلیجی خطے میں استحکام لانے کے لئے پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں۔جیسا کہ پہلے ہی تذکرہ کرلیا کہ جہاں امریکہ کے مفادات خطے میں جنگ اور کشیدگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہاں چین امن اور تجارت کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہے سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کے خاتمے کو جہاں چین کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے وہاں یہ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے لئے ایک دھچکا ہے امریکہ کی کوشش ہے کہ ایران کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ ممالک میں اسلحے کی فروخت کو فروغ دے اور اس کے ذریعے اپنی آمدن میں اضافہ کرے ایسی صورت میں حالیہ پیش رفت امریکہ کی ناکامی کا مظہر ہے بحیثیت مجموعی دیکھاجائے تو ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف یوکرین اور روس میں جنگ جاری ہے وہاں دوسری طرف تائیوان کے مسئلے پر امریکہ چین کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے چین نے عالمی امن کے لئے اپنے کردار کو واضح کر کے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ تنازعات کے پرامن حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔