سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ حالیہ برسوں میں مشرقِ وسطی کے خطے کے لئے اہم ترین پیش رفت ہے، اور ساتھ ہی چینی صدر شی جن پنگ کی ثالثی اور مصالحانہ کردار کی اہم ترین مثال بھی ہے، اس ماہ کی چھ سے دس تاریخ کے دوران سعودی عرب اور ایران کے سیکورٹی ایڈوائزر کی سطح کے وفود کے درمیان بیجنگ میں مذاکرات ہوئے، جن کا نتیجہ اس غیر معمولی خبر کی صورت میں سامنے آیا، مگر اس سطح کی پیش رفت کے لیے چار روز تو شاید فیصلہ کن تھے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششیں دراصل کچھ عرصے سے جاری تھیں، اس میں چین کی کوششیں بجا طور پر قابل ذکر ہیں، مگر جیسا کہ اس مذاکراتی عمل کے سہ فریقی اعلامیہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے، سعودی عرب اور ایران مذاکرات 2021 سے سلطنت عمان اور عراق کی میزبانی میں جاری تھے، اس طرح دو برس پہلے شروع ہونے والی کاوشیں جمعہ کے روز بیجنگ میں منطقی نتیجے تک پہنچیں، اور دونوں اسلامی ممالک کے 2016 میں ٹوٹے ہوئے سفارتی رشتوں کی بحالی کا معاہدہ طے پایا، دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ سفارتخانوں کی بحالی کے لیے انتظامات پر مستقبل قریب میں ملاقات کریں گے، سعودی عرب اور ایران نے 2001 کے سیکورٹی تعاون کے معاہدے اور 1998 میں ہونے والی معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، سائنس، ثقافت، کھیلوں اور نوجوانوں سے متعلق ایگریمنٹ آف کوآپریشن پر عمل درآمد پر بھی اتفاق کیا ہے اور حالیہ مذاکرات کے تینوں فریقوں یعنی سعودی عرب، ایران اور چین نے علاقائی اور عالمی امن کے لئے تمام کاوشیں بروئے کار لانے میں بھی کوشش جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ سعودی عرب کی بدلتی ریاستی پالیسی میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن کا اہم کردار ہے، نوجوان سعودی ولی عہد دنیا کے حال اور مستقبل کو جدید نظر سے دیکھتے ہیں، اور آنے والے وقت کے معاشی تقاضوں اور رجحانات کو بخوبی سمجھتے ہیں، چنانچہ اس ویژن کے حامل لیڈر کے لئے دنیا کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اور ایران پاکستان کے برادر اسلامی ممالک ہیں، ان کے ساتھ دین اور دنیا کے گہرے رشتے ہیں، ساتھ ہی ثقافتی اور علاقائی قرابت داری کے رشتے بھی ہیں، لہذا دونوں برادر ممالک کے سفارتی تعلقات کی بحالی فطری طور پر پاکستان کے لئے خوشی کی خبر ہے، یہ بات بھی ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ اس نیک کام میں ہمارے مشترکہ دوست چین کی کاوشیں بارآور ثابت ہوئی ہیں، یہ بھی شاید محض اتفاقیہ نہیں کہ مشرق وسطی کے دو اہم ممالک کے تعلقات میں بحالی کا کارنامہ عین اس روز انجام پایا، جو صدر شی چن پنگ کے تیسرے صدارتی دور کا پہلا روز تھا، کیا یہ ایک اشارہ تھا کہ چینی صدر کا یہ دور جو ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک میں صلح کے آغاز کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے اگلے پانچ برس دنیا کو کس طرح تبدیل کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس پہلے دن کے اقدام سے ہی لگایا جائے پاکستان بھی خطے کی ان قابل ذکر تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، چنانچہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خطے میں پروان چڑھنے والے نئے حالات کے مطابق معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کے تیز ہونے سے فائدہ اٹھائیں۔ایران اور سعودی عرب کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے پاکستان کیلئے دونو ں ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا زریں موقع ہے جس سے پاکستان کوضرورفائدہ اٹھانا چاہئے۔