ایک وقت تھا کہ گاؤں کی فضاء تو صحت دوست تھی ہی ساتھ شہروں کی فضاء بھی اس قدر آلودہ نہیں تھی جس قدر کہ آج کل ہے۔ کہنے کو تو دنیا نے ترقی کی ہے ذرائع آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے اور ایک جگہ جانے کے لئے اگر پہلے ہفتے اور مہینے لگتے تھے تو اب گھنٹوں میں وہاں پہنچا جا سکتا ہے شہر میں بھی گاڑیوں کی فراوانی سے آنے جانے کی سہولت بڑھ گئی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی اس وقت صحت کو لاحق خطرات میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اس آلودگی کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے ایک ٹریفک کی آلودگی ہے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا اور یونیورسٹی آف وکٹوریہ کے ریسرچرز کی ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ عام درجے کی ٹریفک کی آلودگی صر چند گھنٹوں میں ہی انسانی دماغ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔اس ریسرچ کے ایک مصنف یو نیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ریسپائٹری میڈیسن کے سربراہ,پروفیسر ڈاکٹر کرس کارلسٹن کہتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ فضائی آلودگی کے مضر اثرات دماغ کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن اس نئی ریسرچ سے جو دنیا بھر میں اس موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی ہے، ٹریفک کی آلودگی اور دماغی کارکردگی میں تعلق کے بارے میں تازہ شواہد سامنے آئے ہیں۔حال ہی میں جریدے انوائرنمینٹل ہیلتھ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ صرف دو گھنٹے تک ڈیزل کے دھوئیں میں رہنے سے دماغ کی کارکردگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔لیبارٹری کے کنٹرول ماحول میں کئے جانیوالے ایک تجربے سے پہلی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹریفک کا دھواں انسانی دماغ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔اس ریسرچ میں محققین نے 25 صحت مند بالغ افراد کو لیبارٹری میں مختلف اوقات میں مختصر دورانیوں کے لئے ڈیزل کے دھوئیں اور صاف ہوا میں رکھا۔ ان کے دماغ کی کارکردگی کو سائنسی آلات کے
ذریعے ماپا گیا۔ریسرچرز نے تجربے میں شامل افراد کے دماغ کے اس نیٹ ورک کا تجزیہ کیا جوحافظے، اور سوچ بچار میں اہم کردار ادا کرتا ہے انہیں معلوم ہوا کہ ڈیزل کے دھوئیں میں رہنے کے بعد ان کی کارکردگی صاف ہوا میں رہنے کی نسبت زیادہ متاثر ہوئی۔یونیورسٹی آف وکٹوریہ کے نفسیات کے پروفیسر اور اس ریسرچ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر جوڈی گاوریلک کہتے ہیں کہ اگرچہ دماغ کی ان تبدیلیو ں کے اثرات کو سمجھنے کیلیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے تاہم یہ امکان موجود ہے کہ ٹریفک کی آلودگی لوگوں کی سوچنے سمجھنے یا کام کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ڈاکٹر کارلسٹن کہتے ہیں کہ اگرچہ دماغ میں ہونے والی یہ تبدیلیاں عارضی تھیں اور شرکا ء کی کارکردگی ڈیزل کی آلودگی میں ر ہنے کے بعد دوبارہ معمول پر آگئی تھی لیکن ان کا اندازہ ہے کہ اس آلودہ ماحول میں مسلسل رہنے سے یہ کارکردگی مستقل طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ جس ہوا میں سانس لے رہے ہیں وہ کیسی ہے اور امکانی طور پر نقصان دہ فضائی آلودگی کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں مثلا کا ر چلاتے ہوئے۔ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ٹریفک میں پھنس جانے کے بعد اپنی کاروں کے شیشے بند کر لینے چاہئیں۔ اور یہ یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ ا ن کی کار کے ائیر فلٹرز بالکل صحیح کام کر رہے ہوں۔ اور اگر آپ کسی مصروف سڑک پر بائیسکل پر جا رہے ہوں تو کوشش کریں کہ اس کی بجائے کم مصروف راستہ اختیار کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی کو اس وقت انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ سمجھا جاتا ہے اور ہم تمام اہم انسانی اعضا ء پر اس کے دن بدن بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میرا اندازہ ہے کہ ہم دوسری قسم کی فضائی آلودگیوں کے بھی دماغ پر ایسے ہی اثرات دیکھیں گے مثلا جنگلات کی آگ کا دھواں۔انہوں نے کہا کہ اب جب کہ دماغی بیماریوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے صحت عامہ کے حکام اور پالیسی سازوں کیلئے یہ ایک اہم زیر غور موضوع ہونا چاہئے۔تاکہ عالمی سطح پر درپیش اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے اور فضائی آلودگی سے صحت کو درپیش نقصانات سے بچا جا سکے۔