یوں تو بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے تاہم تعلیم کاشعبہ ان میں سے ہے جو زیادہ متاثر ہوا ہے اور ا سکے اثرات زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔کورونا وبا کے دوران سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر تھا، کیونکہ آن لائن تعلیم کیلئے جن سہولیات اور آلات کی ضرورت تھی وہ سب کو دستیاب نہیں تھیں۔یوں اس دوران تعلیم کو بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑا۔مزید بدقسمتی یہ رہی کہ ابھی ہم کورونا کے نقصانات سے سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہمیں اپنی زد میں لے لیا جس کے باعث سندھ اور بلوچستان میں سینکڑوں سکول بند ہوگئے اور یوں ایک بار پھر طویل تعطل کا سامنا رہا۔کیونکہ ہزاروں سکولوں کو سیلاب سے نقصان پہنچا۔ کورونا اور سیلاب کے نقصانات کا سامنا کرتا ہمارا ملک اس وقت معاشی محاذ پر سخت بحران سے بھی گزر رہا ہے اور ہمیں ہوش ربا مہنگائی اور اس میں مسلسل اضافے کی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ یہ صورتحال اس حوالے سے تشویش ناک ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راز تعلیم کے شعبے کی ترقی اور اس کی فعالیت میں ہے جسے مہنگائی سے سخت دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں مہنگائی کی شرح 2 ہندسوں میں تھی لیکن یہ 10 فیصد کے قریب ہی تھی۔ تنخواہیں اگرچہ افراطِ زر کی شرح کے ساتھ نہیں بڑھیں مگر پھر بھی وہ اس کے قریب قریب تھیں۔ حقیقی آمدنی میں کمی آرہی تھی لیکن وہ کمی بہت زیادہ بھی نہیں تھی۔ اب جبکہ افراطِ زر کی شرح پہلے 20 اور پھر 30 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے، ایسے میں ہمارے نظام میں موجود خرابیاں واضح ہورہی ہیں اور مجموعی طور پر عوام پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔بلاشبہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تعلیم کے شعبے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بھی نمایاں اضافے کا امکان ہے کیونکہ افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث سکولوں کو عملے کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی اور یوں زائد فیسوں اور دیگر اخراجات کی مد میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ طلبہ پر آئے گا۔ اس سال صوبائی حکومتوں کی جانب سے تدریسی کتابیں کم تعداد میں شائع کیے جانے کا امکان ہے، جس کے باعث والدین پر کتابوں کی خریداری کا اضافی بوجھ بھی آسکتا ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے اقدامات لینے کے امکانات بھی کم ہی نظر آرہے ہیں معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ تنخواہوں میں بھی شاید بہت کم ہی اضافہ ہو جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنی نوکریاں چھوڑنے کے بارے میں سوچیں۔ تاہم نئی نوکریوں کا ملنا نہ ہی آسان نظر آرہا ہے اور نہ ہی فائدہ مند۔ اس صورتحال میں زیادہ تر لوگوں کی آمدنی متاثر ہوگی اور مستقبل قریب میں حالات بہت سے خاندانوں کو سخت فیصلے لینے پر مجبور کرسکتے ہیں‘مستقبل میں ضرورت اور آسائش میں نہیں بلکہ متعدد ضروریات میں سے انتہائی ناگزیر ضرورت کا انتخاب بھی کرنا پڑسکتا ہے‘ ایسے موقع پر عموما ًتعلیم پر سب سے پہلے سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب خاندانوں کو لگتا ہے وہ مہنگی تعلیم کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اور کچھ خرچوں کو کم کرنے یا مستقل طور پر بند کی ضرورت ہے تو ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوا کر انہیں کام کرنے بھیجنے کو ترجیح دیں گے تاکہ نہ صرف اخراجات میں کمی آئے بلکہ آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔سالانہ سٹیٹس آف ایجوکیشن کی رپورٹ نے نجی تعلیمی اداروں سے واپس سرکاری سکولوں میں داخلوں کو ظاہر کیا ہے۔ تو کیا یہ بڑھتے ہوئے معاشی دبا ؤکے باعث ہوا ہے چونکہ سرکاری اداروں میں فیس ادا نہیں کرنی پڑتی۔ اس سوال سے قطع نظر شاید ہمیں اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوانے پر بھی مجبور ہوں گے‘ نجی تعلیمی ادارے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے شاید کئی والدین مشکل فیصلے لینے پر مجبور ہوں گے۔سکول جانے والے ایک بچے کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کے اس کے والدین، خاندان اور مجموعی طور پر پورے ملک پر کافی زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔