روس یوکرین تنازعہ

اہل زمین کو اس وقت کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ایک طرف ماحولیاتی آلودگی ہے کہ زندگی کیلئے خطرہ ہے، دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں نے آفات کو دعوت دی ہے مگر ایسے میں عالمی طاقتیں روئے زمین پر خوشحالی اور ترقی کی بجائے تباہی کاسامان تیار کرنے میں مصروف ہیں اور ان ہتھیاروں کو جنگوں میں آزماتے بھی ہیں۔اس وقت روس اور یوکرین کے درمیا ن جو جنگ جاری ہے اس میں بھی روس نے اپنے نت نئے ہتھیاروں کو عملی جنگ میں آزمایا ہے۔ حال ہی میں یوکرین بھر میں روسی حملوں کی ایک نئی لہر میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان حملوں میں روس نے طاقتور ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جن میں ہائپرسونک میزائل بھی شامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق روس نے جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران کنزال ہائپرسونک میزائل، جو فضا میں اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں، فائر نہیں کیے تھے۔اس لیے تازہ حملے کو اب تک کا سب سے شدید میزائل حملہ کہا جا رہا ہے۔جمعرات کو روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے کہا کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی، سمندری اور زمینی ہتھیاروں، بشمول کنزال ہائپرسونک میزائل سسٹم، نے یوکرین کے فوجی انفراسٹرکچر کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔اس سے یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ زاپوریژیا کی توانائی منقطع ہوئی تاہم اسے بحال کر لیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ تابکار مواد کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بجلی استعمال ہوتی ہے۔دوسری جانب یوکرینی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے 34 کروز میزائل  مار گرائے ہیں۔حالیہ کچھ عرصے سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بیلسٹک ہائپر سونک میزائلوں میں روس کی سرمایہ کاری کو نمایاں کیا ہے۔ یہ میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز سفر کر سکتے ہیں۔یہ تقریباً ایک ماہ میں یوکرین کے توانائی کے انفراسٹرکچر پر روسی حملوں کی پہلی بڑی کوشش ہے۔روس کے یوکرین کے بنیادی انفراسٹرکچر پر حملوں میں تیزی آنا قابل ذکر ہے۔ تاہم ساتھ ہی دوسری طرف یوکرین کی فوج آنے والے میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں بھی کافی ماہر ہو گئی ہے۔ابتدائی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ روز استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ مار گرایا گیا جس میں 70 فیصد سے زیادہ کروز میزائل گرائے گئے اور آدھے ڈرونز کو گرا لیا گیا۔جس جدید میزائل کو روس نے گزشتہ روز داغا، یہ آٹھ میٹر طویل ہائپر سونک میزائل دو ہزار کلو میٹر تک کی رینج رکھتا ہے اور اس کی رفتار آواز سے پانچ گنا تیز ہے۔کچھ ہتھیار، جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کے-22 (K-22) اینٹی شپ میزائل، جو انتہائی بلندی سے اپنے ہدف پر تیزی سے گرتے ہیں، ان کو روکنا کافی مشکل ہے۔ایسا ہی ایس 300 طیارہ شکن میزائل نظام کے ساتھ ہے، جو کبھی بھی زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا، لیکن گذشتہ چھ ماہ کے دوران اسے حملے کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔جنگ کسی کے فائدے میں نہیں چاہے وہ طاقتور ملک ہو یا پھر مغلوب۔ دونوں طرف سے انسان ہی مرتے ہیں۔کیا ہی بہتر ہو کہ عالمی طاقتیں ایک دوسرے  پر جدید  ہتھیاروں کے معاملے میں سبقت حاصل کرنے کی بجائے اپنے وسائل ترقی پذیر ممالک سے غربت اور افلاس کے خاتمے کیلئے استعمال میں لائیں۔