روس سے باہر کے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یوکرین کے خلاف فوجی کاروائی کی وجہ سے صدر ولادی میر پیوٹن کی مقبولیت بڑھ گئی ہے‘قبل ازیں پیوٹن چیچنیا میں بغاوت کو کچلنے کے بعد قومی ہیرو بن گئے تھے‘ انہوں نے بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اب 23 سال بعد ان کے ناقدین نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کے دور میں ملک میں جمہوریت بہت کمزور اور آمریت مضبوط ہو گئی ہے‘گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد سے مغربی ممالک میں روسی ماہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پیوٹن کا فوجی اقدام ملک کے لئے خودکش ثابت ہو سکتا ہے‘ ان کے بقول یوکرین میں شکست کے بعد سائز کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس اسی طرح بکھر سکتا ہے جس طرح 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا‘روسی امور کے ماہر اور مصنف جانوس بوگاسکی گزشتہ سال کے آخر میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ولادی میر پیوٹن نے روس کو ٹوٹنے سے روکنے کے لئے اقتدار سنبھالا تھا‘ لیکن اب شاید انہیں ملک کے زوال کے لئے یاد کیا جائے گا‘خود روسی صدر نے بھی گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی ممالک اور نیٹو پر روسی فیڈریشن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرنے کے کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں‘ گزشتہ ماہ کے آواخر میں سرکاری ٹی وی چینل روسیا کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ یہ سازش سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے جاری ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پیوٹن ایک طرف مغربی ممالک پر روس کے ٹکڑے کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور دوسری جانب اپنے ملک کا حجم بھی بڑھاتے جا رہے ہیں‘گزشتہ سال ستمبر میں انہوں نے ماسکو میں ایک تقریب میں یوکرین کے چار صوبوں یعنی ڈونیٹسک، کھیرسن، لوہانسک اور زپوریزیا کو روس میں شامل کیا‘ انہوں نے ان صوبوں میں نام نہاد ریفرنڈم کا انعقاد کیا تھا کریمیا کا بھی 2014 میں اسی طرح کے ریفرنڈم کے بعد غیر قانونی طور پر الحاق کیا گیا تھا‘روسی فیڈریشن کی سرحدیں مشرقی یورپ سے مغربی ایشیا تک ہیں اور یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ لیکن 15 کروڑ کے ساتھ اس کی آبادی تقریباً ریاست بہار کے برابر ہے روس کی معیشت دنیا میں نویں نمبر پر ہے‘ پہلی روسی فیڈریشن 83 علاقوں، ریاستوں، شہروں اور صوبوں پر مشتمل تھی‘اب یہ تعداد 89 ہو گئی ہے‘ ان میں سے 21 صوبے ایسے ہیں جن کا تعلق غیر روسی نسلی اقلیتی برادریوں سے ہے‘ سینئر صحافی جوناتھن پرلمین کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ امریکہ روسی فیڈریشن کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ پیوٹن نے گزشتہ فروری میں یوکرین پر حملہ کیا تھا، امریکہ اور مغربی ممالک اب یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں جس کا مقصد روس کو اس پر قبضے سے روکنا ہے‘ان کے خیال میں روس نہیں بکھر سکتا؛روس کو توڑنے کے لئے یا تو ان کے اپنے ملک میں جنگ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ ہار جائے‘ ویتنام کی جنگ میں شکست کے بعد امریکہ بکھرا نہیں تھا‘ جنگ ہارنے کے بعد قیادت بدل سکتی ہے، لیکن روس کے ہارنے کا امکان نہیں ہے‘ اگر جنگ اختتام کو پہنچ جاتی ہے یا کچھ علاقوں میں روس کو شکست بھی ہوتی ہے تو اس کا اثر معمولی ہوگا‘اجے پٹنائک کے مطابق روس میں قیادت کی تبدیلی کا امکان بھی کم ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جنگ روس کے اندر نہیں ہو رہی۔ اگر روس کو علاقائی نقصان ہوا تو بھی یوکرین میں ہو گا‘ دوسرے روس پر لگائی گئی پابندیاں اس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو رہی ہیں۔ کوئی اقتصادی بحران پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ روس میں اگر روسی فوجی بڑی تعداد میں مرنا شروع کر دیں تو ملک میں احتجاج ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے قیادت بدل سکتی ہے۔تیسری وجہ وہ مہاجرین ہیں جو یوکرین سے روس آئے۔ ان کی تعداد 27 لاکھ ہے۔ اس وقت روس آنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق یوکرین سے ہے جو روسی زبان بولتے ہیں اور روسی نژاد ہیں اور یہاں تک کہ وہ اسی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں، وہ پیوٹن کے ساتھ ہیں‘اگر روس جنگ ہار جاتا ہے تو یہ پیوٹن کیلئے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کا کوئی متبادل ہے یا نہیں، لیکن روسی فیڈریشن کا ٹوٹنا ممکن نہیں ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ روس کو اس طرح کے معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو سیاسی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔