آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی

اور تازہ خبر چین سے یہ آئی ہے کہ سب سے لمبی گردن والا سبزہ خورسوروپوڈس ڈائنو سار دریافت ہوا ہے ڈائنو سار تو ہوتے ہی لمبی گردن والے ہیں لیکن نئے دریافت ہونے والے اس ڈائنو سار کی گردن بچوں کی سکول بس سے بھی دس فٹ زیادہ یعنی پندرہ میٹر لمبی ہے، اس کا نام بھی خاصا لمبا ”مامین چی سارس سائنو سینڈروم“ رکھا گیا ہے،اور نیویارک کی سٹونی بروک یونیورسٹی کے ڈاکٹر اینڈریو مور نے نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ”مامین چی سارس“ کی گردن میں ایک یا دو کی بجائے اٹھارہ مہرے ہیں اس سے اس کی گردن کی لمبائی 49 فٹ ہے، ”روزنامہ آج“کے ڈائجسٹ کے صفحہ پر گزشتہ کل یہ خبر پڑھتے ہوئے میں بہت دیر اس خبر اور ڈائنوسار کے خاکوں سے نظریں نہیں ہٹا سکا، یہ کیفیت اس کیفیت سے ضرور ملتی جلتی ہو گی جس کیفیت میں کبھی شکیب جلالی ؔنے یہ شعر کہا ہو گا 
 کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
 وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں 
 اس لئے میں نے ایک بار تو یہ خبر پڑھ لی مگر پھر میں جانے کیا کچھ پڑھ رہا تھا،اب سوچتا ہوں تو شاید اس خبر کے پڑھتے ہی میں ڈائنوسار کی گردن کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا تھا، کیونکہ اس نوع کی بہت سی خبریں، سائنسی ایجادات اور ہر روز ایک نئی دریافت اور ان کے مطالعہ کے بعد کچھ نتائج بر آمد کرنے کی اطلاعات نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں جو نئی نئی ایجادات اور اسی نوع کی نئی چیزیں ڈھونڈنے میں لگے ہو ئے ہیں ان لوگوں کے پاس کتنا بہت وقت ہے کہ وہ حال کو چھوڑ کر ماضی کے گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں، کیا ان لوگوں کے ہاں میڈیا کی حکمرانی نہیں ہے جو ان کی سوچوں کو یرغمال بنائے رکھے،کیا ان کے گھر اور جاب کے درمیان کے سارے راستے کھلے ہو ئے ہیں اور وہ سکون سے اپنی اپنی تجربہ گاہوں میں پہنچ کر کائنات کی گتھیاں سلجھانے بیٹھ جاتے ہیں، اور ہمارے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ ہم صرف ”سامعین و ناظرین اور صارفین“ ہیں، ہم ان کی خبریں سنتے دیکھتے اور ان کی بنائی ہوئی پراڈکس خرید کر استعمال کرتے ہیں، ہم وہ جو دن رات یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم ایک غریب قوم ہیں، مہنگائی نے جینا حرام کر دیا ہے غربت کی شاید کوئی لکیر بھی ہے جس سے نیچے رہتے ہوئے ہم مر مر کر جیتے ہیں، محلہ اور قرابت داروں سے چھوٹے موٹے قرضوں سے لے کر پوری دنیا سے قرض لینے تک اور اب تو قرض لیتے لیتے نوبت بھیک مانگنے تک آن پہنچی ہے ہر نئے سال کی آمد کے ساتھ مجھے اپنا ہی شعر جیسے چھلنی کر دیتا ہے کہ شاید کوئی ایک سال تو ایسا آئے کہ میرا یہ شعر ماضی کا قصہ بن جائے،
 بھیک جو مانگنے نکلوں گا تو در کتنے ہیں 
 پوچھ کاہن سے نئے سال سفر کتنے ہیں 
 غریب قوم کے اس غریب ملک میں جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو محفوظ طریقے سے سڑک پار کرنے کے لئے تکلیف دہ حد تک طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اتنی گاڑیاں سڑک پر ہو تی ہیں کہ انہیں رینگ رینگ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے، دن میں کئی کئی بار یہاں وہاں سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے، پانچ دس منٹ کے فاصلہ کم از کم گھنٹہ بھر تو لیتا ہی ہے بسا اوقات اس سے بھی کئی زیادہ وقت سڑک پرگزر جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ وقت کڑھتے کڑھتے اور اپنے نظام کو صاحبان اختیار اور صاحبان اقتدار کو کوس کوس کر ہی گزرتا ہے جس کے بعد اپنی اپنی جاب پر پہنچنے کے بعد دیر دیر تک اپنے تھکے ہوئے اعصاب سہلانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا جا سکتا اس حالت میں کونسی ایجاد اور کہاں کی دریافت بس ایک سوچ امر بیل کی طرح بدن سے لپٹی رہتی ہے کہ واپس گھر کیسے پہنچیں گے، گھر پہنچ کر خود کو میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جو ہمیں ایسے ایسے خوفناک ٹاک شوز دکھاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ بس اگلے ہی پل کچھ ہونے والا ہے بیشتر خبروں اور تجزیوں کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ”آنے والے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے بہت اہم ہیں“ گویا انتظار کی تار سے باندھ دیتے ہیں، اور ہم اس سب کچھ کے اس حد تک عادی چکے ہیں کہ سو کام چھوڑ کر ایک ایک منٹ گننے بیٹھ جاتے ہیں اور چوبیس کی بجائے اڑتالیس اور اڑتالیس کی بجائے ساٹھ گھنٹے گزرنے پر صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی تو ہم غالب کے ہم نوا بن جاتے ہیں 
 تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اْڑیں گے پرزے
 دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا 
 اور پھرکسی نئی خبر کے ساتھ نئے انتظار کی سولی پر خود کو لٹکا دیتے ہیں، سارا دن اور مہ سال بس یہی ایک تماشا لگا ہوا ہے اور ہم اچھے دنوں کے سپنے آنکھوں میں سجائے راستوں کی دھول ہوتے جاتے ہیں، ہر شخص اپنے مفادات کے کھونٹے سے بندھاہوا ہے یہی حال ہمارے سیاسی زعما کا بھی ہے اپنے لوگوں کے بارے میں سوچنے کا نہ ان کے پاس وقت ہے نہ دماغ اور دعویٰ ہر ایک کو اپنے لوگوں کے غمگسار ہونے کا ہے اور ہر ایک خود کو بائیس کروڑ عوام کے اصلی،سچے اور سْچے رہنما ہونے کا ہے، ایک لحاظ سے وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ جب بھی ہمیں آواز دیتے ہیں ہم دل و جان سے ان کے کیمپ میں آ جاتے ہیں، اس لئے میں سوچتا ہو اور کڑھتا ہوں کہ آخر وہ کون لوگ ہیں ”جو نئی نئی ایجادات اور اسی نوع کی نئی چیزیں ڈھونڈنے میں لگے ہو ئے ہیں ان لوگوں کے پاس کتنا بہت وقت ہے“ ہم تو اپنی سڑکوں کو ٹریفک کے لئے رواں دواں نہیں رکھ سکتے اور اچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں بھر کے ان زعما کی آواز پر سارے کام کاج ترک کر دیتے ہیں جو زعما کام کاج کے لئے ساری عمر کبھی پریشان نہیں ہوتے، ہم ہیں ان کے حصے کا کام کرنے کے لئے ان کے آواز کے منتظر کہ کب بلاوا آئے اور ہم بھی سڑکوں کی رونق بڑھا دیں فراز یاد آگئے۔
 آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
 ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے