دنیا پر جنگ کے منڈلاتے بادل

دنیا پر جنگ کے منڈلاتے باد ل گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور مختلف وبائی امراض جیسے مسائل موجود ہیں۔تازہ ترین کشیدگی چین اور امریکہ کے درمیان تائیوان کی صدر کے دورہ امریکہ کے حوالے سے پیداہوئی ہے۔ جہاں چین نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی پارلیمنٹ کے اسپیکر کیون میکارتھی نے تائیوان کی صدر سے ملاقات کی تو امریکہ سے جنگ کریں گے۔عالمی  میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے یہ دھمکی اس وقت دی ہے جب تائیوان کی صدر سائی انگ وین اگلے ماہ ممکنہ طور پر وسطی امریکہ کے دورے کے دوران نیویارک اور کیلی فورنیا جائیں گی اور وہاں امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر سے ملاقات بھی کریں گی۔تائیوان کی صدر آئندہ ماہ وسطی امریکی ممالک گوئٹے مالا اور بیلز کا دورہ کریں گی۔ دورے کا اختتام نیویارک اور کیلی فورنیا میں ہوگا لیکن ابھی تک ان کی امریکی سپیکر سے ملاقات کی باضابطہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔تاہم چین کے تائیوان امور کے دفتر کے ترجمان ژو فینگلین نے الزام عائد کیا کہ تائیوانی صدر کی وسطی امریکی ممالک کے دورے کے دوران نیویارک اور کیلی فورنیا کی ٹرانزٹ فلائٹ صرف ہوائی اڈے یا ہوٹل پر انتظار کے لئے نہیں بلکہ امریکی حکام اور قانون سازوں سے ملاقات کے لئے ہے۔تائیوان میں چین کے ترجمان ژو فینگلین نے مزید کہا کہ صدر تسائی امریکی ایوان کے سپیکر میک کارتھی سے ملاقات کرتی ہیں تو یہ ایک اور اشتعال انگیزی ہوگی جو ون چائنا اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے اور چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔چین کی دھمکی پر تائیوان کی مسلح افواج نے کہا کہ وہ صدر تسائی کے بیرون ملک دورے کے دوران کسی بھی چینی اقدام پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور قومی دفاع اور سالمیت کو یقینی بنائیں گے۔یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ جب تائیوان کی صدر کی امریکی سپیکر سے ملاقات پر چین نے  رد عمل دکھایا ہو۔گزشتہ برس اگست میں اس وقت کی امریکی سپیکر نینسی پلوسی تائیوان پہنچیں تو چینی طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود  میں پروازیں کرکے اس پر ردعمل دیا تھا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے جب کہ امریکہ  اور اس کے اتحادی ممالک تائیوان کی آزاد اور خود مختار ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک اور پیش رفت جو عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے وہ بیلا روس میں روس کے جوہری ہتھیاروں کی موجودگی ہے۔بیلاروس نے منگل کو کہا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، نیٹو اور یورپی یونین کے روس پر بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے بعد اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر روس کے جوہری ہتھیاروں کی اجازت دے گا۔بیلاروس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان حالات، اور ان سے پیدا ہونے والے قومی سلامتی کے دائرے میں جائز خدشات اور خطرات کے پیش نظر، بیلاروس اپنی سیکورٹی اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنا نے پر مجبور ہے۔بیلاروس نے مزید کہا کہ روس کا بیلاروس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار رکھنے کا منصوبہ بین الاقوامی عدم پھیلا ؤکے معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اور یہ کہ بیلاروس کی حکومت ان ہتھیاروں پر کنٹرول نہیں کرے گی۔روس کے صدر پیوٹن نے ہفتے کے روز ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام مغرب کی طرف سے یوکرین کی افواج کے لئے بڑھتی ہوئی فوجی حمایت کی وجہ سے کیا جارہاہے۔