دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ شدید تر ہوتے جار ہے ہیں اور شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو جو موسمیاتی تبدیلی کے عمل سے متاثر نہ ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کی شدت کہیں بہت زیادہ ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اسباب، اثرات اور اس سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف سطحوں پر مربوط کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کی حیثیت کے باوجود ہمارے ہاں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریبا ًنہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں خصوصا جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔ تحقیق کے چند اہم توجہ طلب نکات میں موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار مقامی انسانی و قدرتی عوامل کو جانچنا، فضائی آلودگی کی اہم وجوہات جاننا اور اس کی نقل و حرکات کا بروقت جاننااور موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت، مزاج اور رہن سہن، بیماریوں کے پھیلاؤ، زراعت اور اجناس کی پیداوار، زمین اور پانی کے حساس ماحولیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لینا اور اس کے ساتھ ساتھ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے حل تلاش کرنا اور حکمتِ عملی واضح کرنا شامل ہوسکتے ہیں۔حکومتی سطح پر ماحولیات کے قوانین پر عمل کروانا، صنعتوں سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا اور نئے جنگلات لگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اقدامات کرنا، نئے شہر بسانا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر احساسِ ذمہ داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آف پاکستان(NDMA) بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے دن رات کوشاں ہے جس کی وجہ سے جانی نقصان میں کمی آئی ہے اور قیمتی املاک کو بچانے میں مدد مل رہی ہے اور عوام میں اس بارے آگاہی مہم کے ذریعے شعور بھی بیدار ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر تحقیق کرنے، انفرادی سطح پر تحقیق کرنے، انفرادی اور ادارتی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ علمی و تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے موجودہ خلا کو کم کیا جاسکے اور اجتماعی کوششوں کو فروغ دیا جاسکے۔ ملکوں اور اداروں کے درمیان موسمیاتی اور دیگر متعلقہ معلومات کا بروقت تبادلہ اور اس میدان میں مزید محققین اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جانا چاہئے۔موسمیاتی تبدیلی آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے جن میں قدرتی وسائل، مثلا پانی، خوراک، لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کا ضیاع شامل ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں چاہئے کہ اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات کو محدودرکھیں اور دستیاب وسائل کی قدر کریں اور ضرورت کے احساس کے تحت چیزیں استعمال کریں، پلاسٹک کے لفافوں اور اس سے بنی دوسری اشیاء کے استعمال کو کم کرتے جائیں، پانی کو ضائع ہونے سے روکیں اور اگر ممکن ہو سکے تو استعمال شدہ صاف پانی کو''ری سائیکل'' کریں۔ قریبی جگہوں میں سائیکل پر یا پیدل جائیں، گھروں میں سولر انرجی کا نظام لگائیں اور بجلی کے استعمال کو کم کریں، گندگی نہ پھیلائیں،گاڑی و فرش دھونے، وضو اور غسل کرنے میں پانی کا ضیاع نہ ہونے دیں اور قابلِ تلف چیزوں کے استعمال سے بھی پرہیز کریں۔ ''چیزوں کا استعمال کم، چیزوں کا استعمال دوبارہ اور چیزوں کا استعمال دوسری جگہ کے مقولے کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ یعنی اس معاملے میں ہر کسی پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے بھرپور کوشش کی ضرورت ہے اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے عمل کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مسئلہ بروقت حل نہ ہو یہ الگ بات ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر وہ تعاون ترقی پذیر ممالک کو حاصل نہیں جس کی توقع کی جارہی ہے۔