بھارت کی آبی جارحیت

سابق سندھ طاس کمشنر جماعت علی شاہ نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے نام لکھے خط میں بھارت کی آبی دہشت گردی کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے، کہ بھارت نے پاکستان کی ملکیت چناب کے دو بڑے معاون دریاؤں چندرا اور بھاگہ کا پانی روکنے کی سازش تیار کر لی ہے۔ بھارت ایک عرصے سے سندھ طاس معاہدے سے نکلنے اور اس معاہدے کو غیر موثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو گزشتہ تقریبا چھ دہائیوں سے دونوں ممالک کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کا ضامن ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم یا اس میں من چاہی تبدیلی کرنا چاہتا ہے، اس حوالے سے پاکستان نے ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت میں اپیل بھی کر رکھی ہے، جبکہ بھارت نے 25 جنوری کو دوطرفہ سطح پر قائم مستقل انڈس کمیشن میں ایک خط بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک اگلے 90 دنوں میں معاہدے سے متعلق مذاکرات کریں، بصورت دیگر بھارت معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان بھارتی سازشوں کا ادراک کرنا ہوگا، نیز سندھ طاس معاہدے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر یک طرفہ طور پر یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا تو بھارت کی آبی جارحیت آبی دہشت گردی میں تبدیل ہو جائے گی، جس کے مضمرات پورے خطے کے لیے کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کے شکار ممالک میں شامل ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ نصف صدی سے ہم نے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا، جس وجہ سے ایک طرف ہم دریاؤں میں میسر پانی کو استعمال کرنے سے محروم ہیں تو دوسری طرف بارشوں کا پانی ذخیرہ نہ کرنے کی وجہ سے سیلاب ہماری زراعت اور معیشت کے لئے تباہی کن ثابت ہوتے ہیں، دریاں کے پانی کو استعمال نہ کرنے اور قیمتی پانی سمندر برد ہونے کا جواز لیکر ہی بھارت ہمارے حصے کے دریاؤں پر پہلے بھی ڈیم بنا چکا ہے، اور اب کھل کر سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے جیسی جارحیت پر آگیا ہے، مگر ہمارے ملک میں  اب بھی اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو ا س سے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم ذخائر آب میں اضافے کی طرف خاطر خواہ توجہ دیں اور اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے سے منصوبے پروان چڑھیں۔ اب تو بھارتی سازش سے باخبر ایک سابق واٹر کمشنر نے اس معاملے کی طرف حکومت کی توجہ دلانے کی کوشش تو کی ہے، اب دیکھیں کہ اس حوالے سے مستقبل قریب میں کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔ معاملے کی حساسیت اور سنگینی کا تقاضا تو یہ ہے، کہ حکومت فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کے ضامن، عالمی بنک کو اس صورت حال اور بھارت کے مذموم عزائم سے آگاہ کرے، اور بھارت کو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرے،اس کے ساتھ ہی، نئے ڈیم بنانے کے لئے اتفاق رائے کا ماحول بنا ئے، اس وقت  تمام قومی جماعتیں نئے ڈیموں پر متفق ہو جائیں تو یہ اس حکومت کی حقیقی قومی خدمت سمجھی جائے گی۔ پانی کے ذخائر میں اضافہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف توانائی کی ضروریات پورا کرنے میں یہ مدد گار ثابت ہونگے بلکہ اس کے ذریعے زراعت میں بھی انقلابی ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی اور اس وقت عالمی سطح پر دو ہی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ایک توانائی بحران اور دوسرا غذائی۔ اس طرح پاکستان ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کر سکتا ہے۔