سیلاب کے چند ماہ بعد  اب پانی کی کمی کاسامنا

 اسے عجیب صورتحال ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ سیلاب آئیں تو پانی کی فراوانی کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے تاہم اس پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث  سیلاب کے چند مہینوں بعد ہی خریف کے سیزن کی فصلوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے حکام کے مطابق رواں سیزن کے لئے 27 فیصد کم پانی دستیاب ہو گا۔ جس کے بارے میں صوبوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث فصلوں کی پیداور متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک میں خریف کی فصل کا موسم عام طور پر اپریل سے ستمبر تک ہوتا ہے۔ جس میں کپاس، گنا، چاول، مکئی اور ماش کی دال کی فصلیں بوئی اور کاشت کی جاتی ہیں۔رواں سال ملک میں غیر متوقع بارشوں کے باعث گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے اورمحکمہ زراعت پنجاب کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں آٹھ لاکھ ایکٹر گندم کی فصل متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔رواں ہفتے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں خریف کی فصلوں کے لیے 27 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس  اجلاس میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لئے پہلے سے جاری تین درجاتی فارمولے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے نمائندوں، ارسا اور واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اراکین نے شرکت کی۔ ماہرین زراعت کے مطابق پاکستان میں ربیع کی فصل کا پہلا مرحلہ یکم اپریل سے دس جون تک مشتمل ہوتا ہے۔ جو کہ ایک اہم دورانیہ ہوتا ہے۔ اِس میں خریف کی فصلوں کی بوائی چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں کپاس سرِ فہرست ہے۔ اس کے بعد چاول کی بوائی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی سیزن میں گنا، مختلف پھلوں کے باغات اور سبزیوں کے کھیتوں کو پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ دوسری طرف عام حالات میں  مارچ کے دِنوں میں پانی کے ڈیم خالی ہو جاتے ہیں، لیکن رواں سال مارچ کے آخری ہفتے اور اپریل کے اوائل میں بارشوں سے ایک طرف تو گندم کی فصل کو نقصان پہنچا ہے وہاں دوسری جانب نہ صرف دریاؤں میں پانی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے بلکہ پانی کے بہاؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مئی جب مختلف فصلوں کی بوائی اپنے عروج پر ہوتی ہے، اس وقت پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔اِس وقت صوبہ سندھ میں فصلوں کی بوائی شروع ہو چکی ہے لیکن صوبہ پنجاب میں بوائی، گندم کی کٹائی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ پاکستان میں کسان مختلف فصلوں کی پیدوار کے لیے نہری پانی استعمال کرتے ہیں۔ رواں سال فصلوں اور پھلوں کے باغات کے لئے پانی کی کمی کے اندیشے سے کسان اور کاشتکار پریشان ہیں۔ ان کے مطابق پہلے تو بے وقت کی بارشوں اور ژالہ باری نے کھیتوں اور باغوں کو نقصان پہنچایا اور اب پانی کی کمی مزید مسائل بڑھا دیگی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن حکومت کی زراعت پر خاطر خواہ توجہ نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رواں سال ہونے والی ژالہ باری سے گندم کی فصل کے ساتھ ساتھ آم کی فصل اور دیگر فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔  جبکہ یہ مسئلہ بھی ابھی درپیش ہے کہ شدید گرمی کے دِنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث کسان متبادل ذرائع سے بھی پانی نہیں حاصل کر پاتے۔جبکہ ہر سال تقریبا ً35 سے 40 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان دنیا کے بہت سے ممالک کو غذائی اجناس برابر کرتا تھا اور گندم سمیت زیادہ تر فصلوں کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کبھی باہر سے گندم یا دیگر زرعی اجناس درآمد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی بدقسمتی سے تمام قدرتی وسائل کے باوجود زراعت کو نظر انداز کرنے سے ہمیں سراسر نقصان ہوا ہے اور قیمتی زرمبادلہ زرعی اجناس کی درآمد پر خرچ ہو جاتا ہے اگر پانی کی تقسیم کے نظام کو موثر بنایا جائے اور دور دراز واقع بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے پر توجہ دی جائے تو وقت دور نہیں جب ایک بار پھر پاکستان زرعی اجناس درآمد کرنے کی بجائے دوسرے ممالک کو برآمد کرے گا تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ زراعت کو اولین ترجیح قرار دیا جائے اور اس شعبے کی ترقی کے لئے مربوط اور منظم پالیسیاں مرتب کی جائیں اس حوالے سے اقدامات میں سستی اور تاخیر کی گنجائش اب نہیں رہی کیونکہ اس وقت ملک کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے لئے زراعت بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔