مسجد اقصی میں اسرائیلی جارحیت 

گزشتہ بدھ کے روز مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی پر اسرائیلی فورسز کا حملہ اور عبادت میں مشغول 350 فلسطینیوں کی گرفتاری انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ 1967  سے جاری ہے؛ تاہم حالیہ چند برسوں کے دوران اس  میں تیزی اور بربریت آتی جارہی ہے۔ بالخصوص ہر سال ماہ رمضان میں جب دنیا بھر میں مسلمان دعاؤں اور عبادات میں مشغول ہوتے ہیں، فلسطینیوں پر اسرائیلی ریاستی جبر کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دو سال قبل اسرائیل کی طرف سے ماہ رمضان میں مسلط کی گئی جنگ 300 سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور ہزاروں زخمیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی تھی، اس دوران مسلمانوں کا مقدس  مقام، مسجد اقصی اور اس کا قریبی علاقہ اسرائیلی افواج کی پرتشدد کاروائیوں کا مرکز بنا رہا۔ گزشتہ برس بھی ماہ رمضان میں 44 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا تھا۔ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی تشدد میں 2021 سے قابل ذکر اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جو 2005 میں دوسرے انتفادہ کے بعد سب سے ہلاکت خیز سال بن گیا۔ گو کہ مسلم ممالک انفرادی اور اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے اجتماعی طور پر وقتا فوقتا اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن اسرائیلی افواج کے بڑھتے مظالم کے پیش نظر اب مسئلہ فلسطین کو بھر پور انداز میں اٹھانا ہوگا۔ لازم ہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی دیگر عالمی تنظیموں کی اس جانب توجہ مبذول کرائی جائے تا کہ نہتے فلسطینی پر امن فضا میں سانس لے سکیں، ضروری امر یہ ہے کہ اس معاملے پر پہلے عرب ممالک اور اسلامی دنیا کو متحرک اور فعال ہونا ہوگا، اس کے بعد ہی دنیا کو متوجہ کرنے کا جواز بنے گا،  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کے متوقع اجلاسوں میں مضبوط لائحہ عمل طے کرکے مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کی جا سکتی ہے۔الجزیرہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے وقت خوف و ہراس میں بھاگنے والے لوگوں کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جب اسرائیلی فورسز نے فلسطینی نمازیوں کے ایک گروپ کو منتشر کرنے کی کوشش کی جو کہ رمضان کے تیسرے جمعہ کو صبح کی نماز ادا کرنے کے لئے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ جانا چاہتے تھے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نمازیوں کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء بھی رکھی ہوئیں تھیں جو کہ روزہ رکھنے کے لئے سحری کر رہے تھے۔رمضان المبارک میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے تاہم بد قسمتی سے انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں کے باوجود امریکہ اور ا سکے اتحادی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں جس سے نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں زیادہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے لگی ہے۔گزشتہ دنوں ایک اسرائیلی وزیر نے یہاں تک بیان دیا تھا کہ روئے زمین پر فلسطینی عوام نامی کوئی مخلوق موجود نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی برادری کو کس طرح نظر انداز کررہی ہے اور اپنے نسل پرستانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ مسلمان ممالک کی طرف سے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے تاہم عالمی برادری کی طرف سے جس طرح فلسطینیوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے وہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ امریکہ برطانیہ سمیت کئی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں فلسطینی عوام کا ساتھ محض بیانات کی حد تک دیتے ہیں عملی طور پر اگر فلسطینی مظلوم عوام کی تکالیف اور مشکلات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں تو اس سے حالات میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔