روس کی جانب سے کئی ماہ سے متواتر تباہ کن حملوں کے باوجود یوکرین چھ ماہ میں پہلی بار بجلی کی برآمد کرنے جا رہا ہے جس کی وجہ ملک کا توانائی کا بحال ہوتا ہوا نظام ہے‘واضح رہے کہ یوکرین سے جنگ کے دوران روس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گذشتہ سال اکتوبر میں یوکرینی توانائی نظام پر طویل عرصے تک جاری رہنے والے حملوں کا آغاز کیا تھا۔ان حملوں کے نتیجے میں یوکرین کو طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑااور ملک کے شہر اور قصبے شدید سردی میں تاریک ہو گئے‘یوکرین کے توانائی کے نظام کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں ملک کی بجلی کی برآمد بند ہو گئی تھی لیکن اب یوکرین اپنی اضافی بجلی ایک بار پھر سے بیچ سکے گا۔یوکرین کے وزیر توانائی ہرمین ہیلوشینکو نے برآمدات کی اجازت دینے کے لئے ایک ایگزیکٹیو حکمنامے پر دستخط کئے تاہم مقامی صارفین کو بجلی کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے گی۔وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ دو ماہ سے بجلی کا نظام اضافی بجلی بنا رہا ہے اور یوکرین میں کسی قسم کی لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔انہوں نے کہا کہ سب سے مشکل موسم سرما گزر چکا ہے۔ اگلا قدم بجلی برآمد کرنے کا آغاز ہو گا جس سے ہم تباہ شدہ نظام کی تعمیر نو کے لئے اضافی مالی وسائل حاصل کر سکیں گے۔انہوں نے مقامی انجنیئرز اور بین الاقوامی شراکت داروں کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی محنت اور معاونت سے نظام کو بحال کیا گیا‘گذشتہ ماہ یوکرین کے رہائشیوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ بجلی کی فراہمی اب زیادہ قابل بھروسہ ہو چکی ہے‘ڈی نیپرو کی رہائشی خاتون اینا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ شہر بدل چکا ہے، آخر کار گلیوں کی روشنی واپس آ چکی ہے اور اب گلیوں میں پھرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتاتاہم ملک میں بجلی کا نظام چلانے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو روس کے حملوں کے تھم جانے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ادارے نے کہا کہ روس نے 1200 میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے توانائی نظام کو نشانہ بنایا۔ادارے کے مطابق یہ حملے یورپ میں کسی بھی ملک کے توانائی نظام کو مفلوج کرنے کی سب سے بڑی کوشش تھے۔یوکرین میں موسم سرما کے دوران شہریوں نے ایسے مراکز قائم کر لئے تھے جہاں بجلی جانے کی صورت میں اجتماعی طور پر گرم رہنے کی سہولت میسر تھی۔ان مراکز میں بجلی اور حدت دونوں کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات، خوراک اور ادویات کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ یوکرین میں ہائیڈرو الیکٹرک اور تھرمل پاور پلانٹس کو روسی حملوں میں نقصان پہنچا تھا۔دوسری جانب یوکرین کو یورپ کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا جو زاپوریژیا شہر پر روسی قبضے کے بعد ماسکو کے زیر انتظام آ گیا۔جون 2022 میں یوکرین نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے سال کے آخر تک یورپی یونین کو بجلی بیچنے سے ڈیڑھ ارب یورو کی کمائی کی امید ہے۔ تاہم اسی سال روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔