(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
جنوبی افریقہ کے عظیم سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا 76سال کی عمر میں سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور انہوں نے افریقن نیشنل کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے کر دوسروں کیلئے جگہ خالی کر دی فی الحال وہ اپنی صدارتی میعاد پوری کریں گے بس اس کے بعد آرام کرینگے پڑھیں لکھیں گے اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں لیکچر دینگے اس وقت موجودہ دنیا میں نیلسن منڈیلا سے بڑا عوامی اور سیاسی لیڈر موجود نہیں ہے وہ ایک نئے آزاد ملک اور قوم کے رہنما اور سب سے بڑے لیڈر ہیں وہ چاہتے تو تادم مرگ اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں ان کے مقابلے میں کسی کو کھڑا ہونے کی جرات بھی نہیں ہو سکتی تھی‘ منڈیلا وہ رہنما ہیں جن سے دنیا کا بڑے سے بڑا رہنما ہاتھ ملانا اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے انہوں نے اپنی قوم کو آزاد کروانے کیلئے 27سال جیل میں گزارے تین کروڑ سیاہ فاموں کے مالدار ملک جنوبی افریقہ میں تیس لاکھ سفید فاموں کی ایک مضبوط حکومت قائم تھی افریقین نیشنل کانگریس آزادی کی جدوجہد میں نصف صدی سے مصروف تھی ساٹھ کی دہائی میں اس جدوجہد نے زور پکڑا اور اس تنظیم نے سیاسی جدوجہد کیساتھ ہتھیاروں کے استعمال کو بھی جائز قرار دے کر سفید فام حکومت سے براہ راست پنجہ آزمائی شروع کردی اس وقت اے این سی کے سربراہ نیلسن منڈیلا تھے انہیں گرفتار کرلیا گیا انہیں 27 سال جیل میں رکھا گیا ساری دنیا نے ان کی رہائی کیلئے اپیلیں کیں مگر سفید فاموں نے رہائی کیلئے ایک ہی شرط رکھی کہ اے این سی اور منڈیلا ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیں ہر سال منڈیلا کو جیل میں یہی پیغام بھجوایا جاتا ہر سال وہ یہی جواب دیتا آپ ظلم‘ استحصال اور ہمارا ملک چھوڑ دیں ہم ہتھیار استعمال کرنا چھوڑ دینگے آخر کار سیاہ فام اکثریت کی جیت ہوئی اور سفید فام اقلیت نے منڈیلا کی شرائط پر انہیں چھوڑ دیا‘ منڈیلا جیل سے نکلے تو ستر سال کے بوڑھے ہو چکے تھے ساری دنیا کی آزاد اور ترقی پسند قوتوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا وہ جہاں گئے ایسے استقبال ہوئے کہ لوگ حیران رہ گئے جس دن منڈیلا نیو یارک میں اترا تھا اس دن اس بے رحم ٹھنڈے شہر میں جشن کا سماں تھا وہ سڑکیں جن پر لاکھوں کاریں چلتی تھیں بند تھیں ہر طرف انسانی سر ہی سر نظر آرہے تھے فلک بوس عمارتوں کی کھڑکیوں بالکونیوں سے پھولوں کی بارش اس عظیم لیڈر پر کی جا رہی تھی اتنے پھول‘ کبوتر‘ غبارے اور رنگ برنگے کاغذ فضا میں چھوڑے گئے کہ آسمان چھپ گیا تھا ترقی پسند قوتوں نے ان کو عظیم لیڈر مانا تھا تو دنیا بھر کے کروڑوں سیاہ فام باشندوں نے انہیں اپنا دیوتا مان لیا کوئی گھر ایسانہ تھا جس میں اس کی تصویر نہ ہو کوئی گلہ ایسا نہ تھا جس میں اس کے نام کا لاکٹ نہ لٹکا ہو اس کی جدوجہد اور شخصیت پر درجنوں فلمیں‘ ڈرامے بنائے گئے بے شمار کتابیں لکھی گئیں امن کا نوبل پرائز نہیں دیا گیا تھا افریقہ کا وہ ہیرو ہے اب وہ ون مین اقوام متحدہ بن گیا ہے جب افریقی ممالک میں جھگڑا ہوتا ہے منڈیلا پھولدار قمیض پہنے پہنچ جاتا ہے اسکے سامنے بڑے سے بڑے باغی اور انقلابی کو سر اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ افریقی ممالک نے اقوام متحدہ میں اپنے مسائل کی ترجمانی کیلئے اس کا ہی انتخاب کیا تھا یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ جنوبی افریقہ کا صدر بھی منتخب نہ ہوا تھا انتخابات میں منڈیلا کی پارٹی نے سچ مچ کا بھاری مینڈیٹ حاصل کیا اس کی قدروقیمت اور سیاسی قدروقامت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اپنی پچاس سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کی صدارت کیلئے اسے اپنے ہاں بلایا‘ بنگلہ دیش نے اپنی25 سالہ یوم آزادی کی تقریبات میں بھی اس عظیم حریت پسند لیڈر کو بلایا ادھر ہم اہل پاکستان نے اپنی گولڈن جوبلی تقریبات کیلئے ملکہ برطانیہ کے قدموں میں سرخ قالین بچھایا‘منڈیلا کے کچھ ذاتی دکھ بھی تھے اس کی ایک محبوبہ تھی ونی منڈیلا یہ اس کی دلہن بھی بنی تھی جب وہ جیل چلا گیا تو وہ جیل میں آکر اس سے ملتی بھی رہی اس کی تحریک آزادی میں سرگرمی سے حصہ بھی لیتی رہی پھر اچانک کیا ہوا کہ ونی کا دل تو جیل خانے میں منڈیلا کے پاس رہ گیا اور اس نے منڈیلا سے بے وفائی کی راہ اختیار کی‘ منڈیلا کو رہائی کے بعد جب یہ خبر ملی تو اس کا دل ٹوٹ گیا اس نے اپنی تیس سالہ رفاقت کو چھوڑ دیا‘ اس نے ونی کو طلاق دیدی ونی اب کٹی پتنگ کی طرح جنوبی افریقہ میں ڈولتی پھر رہی ہے جو عزت و احترام نصف صدی میں کمایا تھا وہ ہوس کی آگ میں جھلس کر برباد ہوگیا ونی اور منڈیلا کی راہیں الگ الگ ہوچکی ہیں‘پوری افریقی قوم اور ترقی پسند قوتوں کا قابل رشک رہنما اب اس نے رضاکارانہ طورپرسیاست سے ریٹائرمنٹ لیکر بے لوث خدمت گزاری‘ قربانی اور ایثاری کی ایک نئی مثال قائم کردی ہے۔