خوراک کا ضیاع، ایک قومی المیہ

 وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر سال ملکی پیداوار کی تقریباًچھبیس فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے، جس کی مالیت چودہ ارب ڈالر بنتی ہے۔یہ صورت حال صرف پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کی بھی ہے تاہم اعداد و شمار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‘دوسری طرف غربت میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس کا براہ راست تعلق اس مسئلے سے ہے‘ اس وقت دنیا بھر میں خوراک ضائع ہونے کی شرح سات فی صد ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہ نو فیصد سے زائد ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے‘ دستاویز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں غذائی اشیاء کی زیادہ مقدار باورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز پر ضائع ہوتی ہے جہاں پر اکثر غذائی اشیاء استعمال نہیں ہوتیں یا ضرورت سے زائد پکائی جاتی ہیں۔ اکثر ذائقہ، سائز اور رنگ کے معیار پر پورا نہ اترنے والی تازہ خوراک کو ضائع کر دیا جاتا ہے‘جبکہ فیکٹریوں میں چھانٹی کے عمل کے دوران خوراک سپلائی چین سے نکال دی جاتی ہے، اکثر غذائی اشیاء زائد المیعاد ہونے پر ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر چہ اجناس اور پھلوں، سبزیوں کو محفوظ کرنے کی سہولتوں کی کمی بھی غذائی ضیاع کا بڑا سبب ہے؛ تاہم اس میں زیادہ کردار انفرادی نوعیت کا ہے۔ اس حوالے سے مجموعی قومی رویے کی اصلاح کی ضرورت ہے اور یہ عمل بطور مسلمان ہمارے دین کی تعلیمات اور کھانے کے آداب و اخلاقیات کے بھی برعکس ہے‘ایسے وقت میں جبکہ ملک کی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے دیگر ضروریات کو پس پشت ڈال کر غذائی اجناس درآمد کی جارہی ہیں، اور ایک نمایاں طبقہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے، انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارا رویہ اور عادات، گناہ کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں بہر صورت اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ اس حوالے سے عوام کو آگاہی دینے کے لئے میڈیا اور علماء کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے‘حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کو ترجیح دینی چاہئے کہ اشیائے خوراک کی ضیاع کم سے کم کیا جا سکے‘اس سلسلے میں متعلقہ وزارت کے ساتھ اس سے جڑے دیگر محکموں کے حکام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرنا ہو گا تبھی اصلاح احوال ممکن ہو سکے گی‘ملک کی موجودہ غیر نسلی  بخش موجودہ معاشی صورتحال میں اس کی ضرورت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ مہنگائی کا شکار غریب خاندان ریلیف کے منتظر ہیں جو نان شبینہ کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘ بجٹ سازی سے قبل انہیں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی سبیل کی جانی چاہئے۔