آب و ہوا کے کارکنوں کے طور پرہم اینٹوں کی دیواروں سے سر پیٹنے کے عادی ہیں‘ ایندھن، جنگلات کی کٹائی اور تباہ کن برآمدی زراعت سے تیزی سے دور ہونے کی ضرورت کے درمیان ہم سیارے کو بچانے کیلئے درکار تبدیلیوں کو آگے بڑھانے کی غرض سے سائنسی شواہد، متحرک گواہی، اخلاقی دلائل، وکالت اور تخلیقی مہم چلانے کے عادی ہیں‘بدقسمتی سے، ہم اس بات کے بھی عادی ہیں کہ حکومتیں ہمیں نظر انداز کر رہی ہیں اور اسکے بجائے آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کو بڑھا رہی ہیں لیکن جب موسمیاتی بحران ان کی دہلیز پر ہے، ان کے اپنے شہری کھو رہے ہیں اور شواہد کا وزن انہیں عمل کرنے کیلئے کہہ رہا ہے تو بہت ساری حکومتیں اس طرح کے بظاہر غیر معقول فیصلے کیوں کرتی ہیں؟گلوبل ساتھ میں حکومتوں کو موسمیاتی کاروائی سے روکنے والے سب سے بڑے عوامل میں سے ایک کانفرنسوں اور مباحثوں میں بمشکل بحث کی جاتی ہے جس کا مقصد کرہ ارض کے وجودی بحران کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے‘یہ وقت ہے کہ ہم قرض کے بارے میں بات کریں۔ خاص طور پر اب عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے موسم بہار کے اجلاسوں کے ساتھ جو حال ہی میں منعقد ہوئے ہیں اور عالمی جنوبی ممالک کیلئے اقتصادی پالیسی کے اختیارات اسپاٹ لائٹ میں ہیں‘ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ممالک کو ایسے اقدامات کرنے کی آزادی حاصل ہو جو ان کے مفاد میں ہو، تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور امیر ممالک میں قائم نجی بینک موسمیاتی ترقی کو روک رہے ہیں۔یہ بھتہ خوری کا قرض جو بہت سے ممالک کے سروں پر لٹکا ہوا ہے انہیں اس قرض کی واپسی کے لئے مشکل انتخاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، انڈونیشیا اپنی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)کے 40 فیصد سے زیادہ کے برابر قرضوں کی ادائیگی کر رہا ہے، جو کہ ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے پیسہ کمانے والے پام آئل کے باغات کیلئے راستہ بنانے کی غرض سے بارش کے جنگلات کاٹنا پڑتے ہیں‘ جی ڈی پی کے 80 فیصد سے زیادہ مالیت کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضرورت بھی ایمیزون کے تحفظ پر برازیل کی سویا بین برآمدات کو ترجیح دینے کا ایک عنصر رہی ہے‘ اسی لئے موزمبیق حالیہ برسوں میں کوئلے اور گیس کی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس قسم کے بیرونی قرضوں کو تقریباً ہمیشہ امریکی ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اسلئے یہاں تک کہ جب ممالک چھوٹے کسانوں، زرعی ماحولیات اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی مدد سے فائدہ اٹھائیں گے، بہت سے لوگ اپنی معیشتوں کو تباہ کن اثرات سے بچانے اور قرض کی ادائیگی کیلئے درکار ڈالر کما نے کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ بہت سے ممالک تعلیم اور صحت کے بجائے اپنے قرض کی ادائیگی پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے اپنے قرض کی اصل رقم واپس کر دی ہے، سود کی بڑھتی ہوئی شرحوں‘ کرنسی کی یکے بعد دیگرے قدروں میں کمی، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات نے قرض کی ادائیگی کی آخری لائن کو ہمیشہ کیلئے پہنچ سے دور رکھا ہے۔درحقیقت، بعض اوقات موسمیاتی بحران نے ممالک کو اس سے بھی زیادہ شرح سود پر مزید قرض لینے پر مجبور کیا ہے۔