وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں 

 موٹر وے کے ٹول پلازہ سے نکل کر گاڑی جہانگیرہ کی طرف جانے والی شاہراہ کی بغلی سڑک پرہو لی تھی،یہ سڑک کچھ دیر تک موٹر وے کے متوازی چلتی رہی اور پھر رفتہ رفتہ اس دور ہوتی جا رہی تھی سارا علاقہ جیسے سنسان پڑا ہوا تھا، پکی سڑک ختم ہو چکی تھی اور اب پتھریلا راستہ شروع ہو چکا تھا جس کے بیچ چھوٹا سے راستے پر گاڑی کم و بیش رینگتی ہوئی جا رہی تھی افراز علی سیّد ایک محتاط ڈرائیور ہے پھر بھی مجھے بار بار کہنا پڑ رہا تھا کہ احتیاط کیونکہ کوئی کوئی پتھر اس عارضی بنے ہوئے راستے کے بیچوں بیچ پڑا نظر آتا تھا، چاروں اور پھیلی ہوئی تنہائی اور خاموشی میں کبھی کبھی موٹر وے سے گزرتی ہوئی کسی گاڑی کی آواز کھنڈت ڈالتی تو قدرے اطمینان ہو جاتاکچھ آگے چل کے وہ عارضی راستہ دائیں طرف مڑ گیا تھا دائیں بائیں کچھ خود رو پودوں اور جھاڑیوں نے ڈھارس بندھائی کہ اب منزل زیادہ دور نہیں ہے،اسی سمے نیلے آسمان پر ملگجے بادل بھی ادھر اْدھر سے اکٹھا ہونا شروع گئے تھے، جس کی وجہ سے طبیعت نہال ہو گئی تھی،، دور دائیں طرف سے فضا کی طرف بلند ہو تا ہوا دھواں بھی دکھائی دیا، یہ بالکل اس دھوئیں سے مشابہ تھا جو پہاڑوں کے سفر میں شام سمے وقفے وقفے سے دور بہت دور سے نظر آتا ہے،جو پہاڑوں پر بنے ہوئے گھروں کے تنوروں سے اٹھتا ہے۔لیکن اس ویرانے میں توا بھی سورج نے آدھا سفر بھی طے نہیں کیا تھا،لیکن بادلوں کی وجہ سے دھواں آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا، اچانک سامنے بہت سی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں،جن کے پار لگے ہوئے شامیانے بھی دکھائی دینے لگے تھے ان ہی کے عقب ہی سے وہ دھواں اٹھ رہا تھا، گاڑی سے اُترے تو مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے استقبال کیا، ایک بڑے میدان پر شامیانوں تلے کرسیاں اور چار پائیاں لگی ہوئی تھیں،کچی مٹی پر چھڑکاؤ کیا گیا تھا، ؔآگے بڑھے تو شامیانوں تلے اور ان کے باہر جیسے ایک میلہ لگا ہوا تھا، جنگل میں منگل کا سماں کتابوں میں پڑھا تھا آج دیکھ رہا تھا (آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے۔ناصر کاظمی) زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے احباب ٹولیوں میں بٹے ہوئے یہاں وہاں خوش گپیوں میں مصروف تھے ان میں سے صحافت، ثقافت اور سیاست سے جڑے ہوئے بہت سے لوگوں کو میں جانتا تھا شاید دو ایک مجھے بھی جانتے ہوں گے مگر پشاور کے علاوہ بیشتر دوستوں سے میری پہلی پہلی ملاقات تھی، اس ہنگامے کے پہلو میں صدیوں کی داستانیں سینے میں چھپائے دریائے سندھ خامشی سے بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر احمد مشتاق یاد آگئے۔
 یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے 
 اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں 
 اسی گو مگو میں گرفتار تھا کہ سامنے سے ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش دوست مہرباں میجر عامر بازو پھیلائے میری طرف بڑھے اور خوش آمدید کہا، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ صحافت، ثقافت اور سیاست کی اس کہکشاں کو دیکھنے مجھے بھی دعوت دی، میجر عامر کچھ اور نئے آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لئے ان کی طرف لپکے تو میں کرسی اٹھا کر پانی سے کچھ بہت ضروری باتیں کرنے اس کے پاس جا بیٹھا، ایک ضروری بات یہ بھی تھی کہ میجر عامر نے تمام تر شہری کثافتوں سے دور ان ویرانوں میں یہ میلہ کیوں لگا یا ہے، معلوم ہوا وہ اپنے کچھ خوابوں کا تعاقب کرتا ہوا یہاں آتا رہتا ہے یہ زمینیں اس کی اپنی ہیں مگر اپنی سرکاری مصروفیات اور قومی ذمہ داریوں نے ان زمینوں سے انہیں رومینس نہیں کرنے دیا مگر اب لگتا ہے کہ یہ رومینس ان کی نجی زندگی کی تمام تر ترجیحات کی فہرست میں 
 دوسرے نمبر تک آ پہنچا ہے، میں نے حیران ہو کر پانی سے پوچھا دوسرے نمبر پر کیوں؟ جواب ملا پہلے نمبر پر دوستوں سے محبت ہے، اور ان کی محبت بے کراں ہے، یہ کم وبیش ربع صدی پرانی کہانی ہے مگر اب دو دہائیوں بعد ا سی ویران اور بنجر علاقے میں لہلاتے کھیت ہیں،جہاں کبھی دن کو جاتے ہوئے دل دہلتا تھا وہا ں ا ب رونق میلہ ہے، زندگی ہے آبادی ہے اور سب سے بڑھ کر نیسا پور ہے جہاں اْس پہلے دن کی طرح آج بھی دوستوں کی محفلیں جمتی ہیں، ثقافت و سیاست و صحافت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی محافل بھی سجتی ہیں،میجر عامر سے ہر ملاقات کسی بڑی ٹریٹ سے کم نہیں ہوتی،دوستوں سے دور نہ ہونے کے لئے گورنری جیسا منصب قبول نہ کرنے والے،میجر عامر کی شخصیت کی بظاہر بہت سی جہتیں ہیں،ایک افسر،،ایک عالم،ایک تجزیہ کار،ایک نڈراور بے باک مقرر،،ایک مفکر، اپنے قومی سلامتی کے موقف پر ڈٹ جانے والا ایک سخت گیررہنما، اپنے لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والا ایک ہیرو،مفاد پرست ٹولے کی آنکھوں میں کھٹکنے والا ایک جانباز سپاہی،محب وطن اور وطن کے لئے لا متناہی خدمات سر انجام دینے والا ایک افسانوی کردار، قومی ہیرو اور نہ
 جانے کیا کیاشعر و ادب سے ان کی دلچسپی نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر لیا ہے۔ اس لئے دریائے سندھ سے پہلے مکالمہ سے لے کر اب تک مجھے یاد نہیں ہماری کتنی ملاقاتیں ہو چکیں،دل و جان کے کتنے ہی رشتے استوار ہو گئے، گھریلو مراسم کا عالم تو یہ ہے کہ جب میں ایک بار امریکہ جانے لگا تو بھابھی نے پوچھا واپسی کب ہے؟برخوردار عمار عامر کی شادی طے ہو رہی ہے آپ کا یہاں ہو نا ضروری ہے کیا کہوں، پورا گھرانہ محبتوں میں شرابور زندگی کر رہا ہے، میجر عامر احمد فراز اور محسن احسان کے شاگرد رہے ہیں ان کے کتنے ہی شعر نوک زبان پر رہتے ہیں ایک با ذوق ادب دوست، ایک عمدہ لکھاری،ایک مفکر ایک نرم خو اور ہنس مکھ ساتھی، ایک شفیق باپ،ایک محبتی شوہر اور سب سے بڑھ کر دوستوں کی پریشانیوں میں ان سے زیادہ پریشان رہنے والے دوست او رمزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شخصیت کی یہ ساری خوبیاں نظر آتی ہیں گویا ان کی پوری زندگی اور شخصیت ایک کھلی کتاب ہے جب جہاں سے مرضی ہو اٹھا کر پڑھ لیں، ادھر اخبار میں کسی شاعر ادیب یا فنکار کی بیماری کا سنا ادھر ان کی وی آئی پی ٹریٹمنٹ کا سارا انتظام پلک جھپکتے میں کرنے والے کسی کی ذرا سی پریشانی پر تڑپ اٹھنے والے انسان دوست میجر عامر کے حوالے سے جب کچھ دن پہلے انتہائی دکھ دینے والی خبریں اخبار میں پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آگیا،، ان کو ذہنی اذیت دینے کے لئے ان پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے کسی کے سوئی چھبنے جتنی تکلیف کا سن کر تڑپ اٹھنے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے والے انسان دوست میجر عامر پر کسی انسان کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بجائے خود ایک ا فترا اور بہتان ہے،میں جانتا ہوں کہ جلد ہی وہ سرخرو ہوں گے لیکن ایسے دنوں میں جب انہیں صحت کے کچھ مسائل در پیش ہیں، ان بے معنی مقدمات نے انہیں اور گھر والوں کو کتنی ذہنی اذیت سے دو چار کیا ہو گا، ہم ایسے سفاک نظام میں جکڑے ہوئے سانس لینے پر مامور اور مجبور کر دیئے گئے ہیں جس میں تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب جھوٹے اور بے بنیادمقدمات میں ملوث شرفا حصول انصاف کے لئے ہلکان ہو چکے ہوتے ہیں اور دیر سے انصاف تو ”شاید“ مل بھی جاتا ہے مگر اذیت میں بتائے ہوئے شب و روز کا مداوا کسی کے پاس بھی نہیں ہو تا، شاید اسی لئے ہمارے علاقے میں مائیں ہمیشہ اپنے بچوں کو یہی دعائیں دیتی ہیں کہ ”میرے بچے اللہ تمہیں نا حق سے محفوظ رکھے“ غلام محمد قاصر یاد آگئے۔
 وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں 
 تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ