شنگھائی تعاون تنظیم کی تقریب کے دوران، بلاول بھٹو زرداری نے ”سفارتی پوائنٹ سکورنگ کیلئے“دہشت گردی کو ہتھیار بنانے کے بارے میں بات کی اگرچہ انہوں نے یہ بات بھارت کا نام لئے بغیر کہی لیکن انکی تقریر سے قبل بھارتی وزیر خارجہ نے بھی ایس سی او سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا اور اسے سرحد پار سمیت اس کی تمام شکلوں اور مظاہر میں روکنا چاہیے‘ دہشت گردی‘ پاکستان کے امن اور اجتماعی ذمہ داری کے پیغام پر قائم رہتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ نے یاد دلایاکہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نہ صرف ایک ”جامع نقطہ نظر بلکہ ایک اجتماعی نقطہ نظر“کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ جب بڑی طاقتیں امن ساز ی کا کردار ادا کرتی ہیں تو امن کی صلاحیت کو فروغ ملتا ہے‘ دنیا کے ہر بڑے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے‘ پاکستان نے بھی افغانستان کے ساتھ اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف علاقائی انضمام اور اقتصادی تعاون بلکہ عالمی امن کے لئے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے‘بلاول بھٹو نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی اور علاقائی رابطوں کو بڑھانے کے بارے میں بات کی کیونکہ SCOیوریشیائی رابطے کے وژن کو اگلی سطح تک لے جانے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہو سکتا ہے‘یہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے اہم الفاظ ہیں جنہوں نے امن پر زور دینے کا انتخاب کیا لیکن اجتماع کو یہ بھی یاد دلایا کہ ”ریاستوں کی جانب سے بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات SCO کے مقاصد کے منافی ہیں“ شنگھائی تعاون تنظیم، یورپی یونین کی طرح اپنے رکن ممالک کے درمیان کثیرالجہتی کاروائیوں کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ دو بڑے اور طاقتور ممالک چین اور روس اس کے کلیدی رکن ہیں‘سارک کے برعکس، جسے ہندوستان اور پاکستان کیمابین اختلافاتکی وجہ سے زیادہ کامیابی نہیں ملی، شنگھائی تعاون تنظیم اب بھی چین اور روس کی وجہ سے بہت سے معاملات کو حل کر سکتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اس میٹنگ میں شرکت کا فیصلہکیا، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کو بلاول بھٹو کے انٹرویوز کے جواب میں جے شنکر کے پاکستان مخالف بیان کے بعد، تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی بھارتی رد عمل کی مذمت کی‘ ذمہ دارانہ سیاست میں یہی ہونا چاہیے‘ ہمارے
اندرون ملک پولرائزیشن سے قطع نظر، ہندوستان میں ایک بین الاقوامی تقریب میں وزیر خارجہ کا پاکستان کی نمائندگی کرنا ملک کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے لئے متحد رہنے کا لمحہ ہے کیونکہ یہ PDM یا PPP پاکستان کی نمائندگی نہیں کر رہی تھی بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے بلاول بھٹو کا گوا کا دورہ بھی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اس علاقائی فورم کو کتنی اہمیت دیتا ہے، جس کی طرف وزیر خارجہ نے ایس سی او کی تقریب سے خطاب میں بھی اشارہ کیا‘ بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے ساتھ، پاکستان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لئے علاقائی تعاون، تجارت اور روابط کو تلاش کرے‘جہاں بلاول بھٹو نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بالکل بھی دو طرفہ اجلاس نہیں تھا، انہوں نے گوا میں موجود پاکستانی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کشمیر کے بارے میں بات کی، اور اس بات کی تصدیق کی کہ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے‘ پاکستان کواس مسئلے کو ہر موقع اور ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانا چاہئیتاکہ دنیا یہ نہ بھولے کہ بھارتی حکومت کشمیر کے معصوم لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے تاہم امید ہے کہ مستقبل میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک علاقائی خوشحالی کے لئے کثیر الجہتی کوششوں کے ذریعے موثر طریقے سے کام کر سکتے ہیں جو خطے کو اپنے تمام شہریوں کے لئے محفوظ بنائے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔