(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
طحہٰ خان صوبہ سرحد کے سب سے منفرد اور سب سے زیادہ باصلاحیت مزاح نگار ہیں شاعری تو عطیہ خداوندی ہوتی ہی ہے مگر مزاح نگاری اس سے بھی بڑا تحفہ ہے شاعر ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک اور تعداد کے لحاظ سے درجنوں اور سینکڑوں کے حساب سے پیدا ہوتے ہیں مگر مزاح نگار اس ساری کھیپ میں ایک دو ہی ہوتے ہیں یہ بات بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے شاعر ہونا اور اوپر سے مزاح نگار ہونا طرفہ انعام ہے۔طحہٰ خان انتہائی طالع مند واقع ہوئے ہیں ہمارے صوبے میں مرزا محمود سرحد ی کے بعد یہی ایسی ہستی ہیں جنہیں شعری مزاح کے میدان میں پاکستان یا اردو دنیا کے کسی بھی بڑے سخن طراز کے سامنے فخر سے پیش کیا جا سکتا ہے اگر میں یہ کہنے کی جسارت کروں کہ ان سے بڑا مزاح نگار اس وقت پورے ملک کی اردو دنیا میں نہیں تو اسے مبالغہ نہ جانا جائے پہلے ہم اپنے صوبے کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں، اس صوبے کی معلوم اردو‘ ادبی تاریخ میں مزاحیہ نثر کی دنیا میں پطرس بخاری اور جسٹس کیانی کے علاوہ تیسرے کسی ادیب یا مزاح نگار کا نام نہیں لیا جا سکتا ہے نظم میں تین دانے مرزا محمود سرحدی‘ نیاز سواتی اور طحہٰ خان ہیں پورے ملک کی سطح پر غور کیجئے ضمیر جعفری‘ سرفراز شاہد‘ پروفیسر انور مسعود‘ دلاور فگار‘ ضیاء الحق قاسمی‘ اطہر شاہ خان جیدی‘ عطاء الحق قاسمی‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کچھ بابے اور چند دوسرے چھوٹے بڑے مزاح نگار اس اسلوب سخن کے پرچم بردار ہیں‘ مزاح و ظرافت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی یہ علم ٹیکنیک یا گرافٹ نہیں ہے جسے کسی دکان‘ تھڑے‘ سکول‘ کالج یا استاد مرشد سے خریدا یا سیکھا جاسکے یہ چیز مفت میں ملتی ہے اور اوپر سے ملتی ہے۔ طحہٰ خان نے بھر پور زندگی گزاری، درس و تدریس سے وابستہ رہے، شعر و سخن کی محفلوں کی جان بنے، ہزاروں لاکھوں دلوں میں مسکراہٹوں کے نغمے بھرے، رنگت ویسی گہری سانولی ہی ہے، قد اسی طرح بلند و بالا ہے، چہرے پر وہی تازگی اور شگفتگی ہے، جسم اسی طرح توانا و تندرست ہے، لباس اسی طرح خوبصورت اور صاف ستھرا ہے، ٹائی کی گانٹھ اسی طرح بندھی ٹکی ہے، پان بھی اس طرح کھاتے ہیں، باتوں میں وہی حدت و حرارت ہے، اسلوب میں وہی تیکھا پن، نظم کے ساتھ نثر میں وہ گل افشانیاں کرتے ہیں کہ بڑے بڑے ادیبوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، ماضی کی یادیں، پڑھی ہوئی کتابوں کی باتیں، علم و دانش کے موتی، عصر جدید کی فکری لہروں کے سہارے،رنگ ڈھنگ اب بھی ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔لہجہ ان کا اب بھی اسی طرح کرارا ہے، زبان کی وہی چاشنی اور روزمرہ محاورات کی وہی دلربائی قائم ہے۔ حس مزاح منجھ کر کرب آشنا ہو گئی ہے مگر قہقہے قرار اور کمال باننٹے والی نادر روزگار ہستی کی بد نصیبی زندگی کے المیوں کی ہم نصیب ہو کر آنسوؤں، آہوں میں ڈھل گئی ہے، علاج انہوں نے یقینا اپنی بساط کے مطابق کیا ہوگا، شاید مرض کو لاعلاج قرار دے دیا گیا ہے، طحہٰ خان ایک شخص نہیں مزاح نگاری کا ایک کلاسیکی عہد ہے، ایک تابندہ روایت ہے، صوبے، پاکستان اور اردو زبان کی ایک مقتدر امانت ہے۔طحہٰ خان انسانوں میں خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹنے کے کتنے ارمان دل میں رکھتے ہوں گے ان کا نشتر مزاح و طنز کتنی نقابوں کو نوچنے کی تاب رکھتا ہوگا وہ کتنی دانائیوں کی شمعیں اب بھی روشن کر سکتے ہیں۔ مگر ہم نے اتنے بڑے آدمی کو وقت کے بے رحم دھارے کے حوالے کرکے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔