ہیٹ ویو کی پیش گوئی

اب تک تو موسم خاصا ٹھنڈا رہا اور مئی مہینے پر جنوری اور فروری کا گمان ہوتا رہا تاہم یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا اورمحکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک کے نصف سے زائد جنوبی حصے کے علاقوں کو اس ہفتے درجہ حرارت میں اچانک اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ موسمیات کی جانب سے  گزشتہ روز جاری کردہ موسمیاتی ایڈوائزری کے مطابق بالائی فضا میں ہوا کے زیادہ دبا ؤکے پیش نظر ملک کے بیشتر حصوں بالخصوص ملک کے جنوبی نصف حصوں میں 10 سے 13 مئی تک دن کے اوقات میں درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا امکان ہے۔سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں دن کا درجہ حرارت معمول سے تین سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔بالائی اور وسطی پنجاب، اسلام آباد، بالائی خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پارہ معمول سے دو سے تین ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہے گا۔محکمہ موسمیات نے کاشتکاروں کو فصلوں کے پانی کا انتظام کرنے کا مشورہ دیا ہے اور عوام الناس کو بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ براہ راست سورج کی تپش میں غیر ضروری طور پر جانے سے گریز کریں اور پانی کا درست استعمال کریں۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ سینیٹر شیری رحمن نے اداروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صحت عامہ کے تحفظ اور کمزور کمیونٹیز پر شدید موسمی اثرات کو کم کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔وفاقی وزیر کی جانب سے یہ مشورہ محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں ماہ کے لئے موسم کی تازہ ترین پیش گوئی کے بعد سامنے آئی ہے۔اپنی اپیل میں شیری رحمن نے تمام اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ہیٹ ویو کے حوالے سے رہنما ہدایات پر عمل کریں، یہ رہنما ہدایات گرمی سے متعلق بیماریوں کے پھیلا کو روکنے کے لئے ایک فعال نقطہ نظر پیش کرتی ہیں اور شدید گرمی کے واقعات کے لئے تیاری اور ان کا جواب دینے کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔رہنما خطوط میں بیان کردہ کلیدی قلیل مدتی اقدامات میں یونین کونسل سطح کے رسپانس یونٹس فعال کرنا اور شہری آبادی کے کمزور طبقات کی حفاظت کے لیے رابطہ کاری کے لئے صوبائی سطح پر کنٹرول رومز کا قیام شامل ہے۔شیری رحمن نے گرمی کی لہر کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لئے کئی درمیانی سے طویل مدتی اقدامات کا خاکہ پیش کیا، مثلا ًسکولوں کے نصاب میں موسمیاتی آفات سے پیدا ہونے والی تباہی کا انتظام، شہری علاقوں میں زیادہ درخت لگا کر سبز جگہوں میں اضافہ، عوام کی آسانی کے لیے قابل رسائی جگہوں پر کول سنٹرز کا قیام اور ابتدائی ہیٹ ہیلتھ وارننگ سسٹم تیار کرنا دیکھا جائے تو یہ اقدامات ملک کو شدید موسمی واقعات کے خلاف لچک پیدا کرنے اور طویل مدت میں اپنے شہریوں کی صحت اور حفاظت کے تحفظ میں مدد فراہم کریں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، خاص طور پر عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پورے خطے اور ملک میں انتہائی شدید اور دیرپا گرمی کی لہریں پیدا ہو رہی ہیں اور پاکستان کا شمار دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے، جو بار بار موسمیاتی آفات کا سامنا کرتے ہیں، پچھلی دہائی کے دوران گرم دنوں کی تعداد عالمی سطح پر سرد دنوں کی تعدد سے تین گنا زیادہ تھی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پچھلے تین سالوں میں کرہ ارض پر سب سے زیادہ مسلسل گرم درجہ حرارت ریکارڈ کیاگیا ہے اور اس سال ال نینو کی واپسی متوقع ہے جو ماحولیاتی نظام اور کمزور ممالک پر تباہ کن اثرات کے ساتھ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا سکتی ہے۔