پاکستان کی ساتویں مردم اور خانہ شماری کا عمل پندرہ مئی کے روز اِس صورت مکمل ہوا کہ اِس میں پانچ مرتبہ توسیع کرنا پڑی۔ مردم شماری کے نتیجے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ) 24 کروڑ 65 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اِس سے قبل سال 2017ء کی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ سامنے آئی تھی۔ نئے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ اکیس لاکھ سے زیادہ‘ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ‘ خیبرپختونخوا کی آبادی تین کروڑ چھیانوے لاکھ سے زیادہ‘ بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ آٹھ لاکھ سے زیادہ اور اسلام (وفاقی دارالحکومت کی آبادی تیئس لاکھ دو ہزار سے زیادہ ہے۔ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی مردم شماری تنازعات کا شکار ہے کیونکہ سٹیک ہولڈرز خاص طور پر سندھ اِس مردم و خانہ شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان کا کہنا ہے کہ مسئلہ مردم شماری کے نتائج کا نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی اپنی رائے کا ہے کیونکہ وہ مردم شماری کے نتائج کو قانون ساز ایوانوں میں نشستوں کی تعداد کے طور پر دیکھتے ہیں اور اِسی آبادی کے شمار کی بنیاد پر صوبوں کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ سے مالی وسائل بھی ملتے ہیں تو ہر صوبے کی خواہش ہے کہ اُس کی آبادی زیادہ سے زیادہ تسلیم کی جائے۔ پاکستان میں وسائل کی تقسیم میں آبادی کا تناسب اَسی فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبے زیادہ آبادی کی صورت مردم شماری کو سیاسی آلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مردم شماری کو مزید قابل قبول بنانے کے لئے عہدیداروں نے آبادی کو ’این ایف سی ایوارڈ‘ سے الگ کرنے کی تجویز دی ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ مردم شماری کو دنیا بھر میں پالیسی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اسے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ادارہئ شماریات نے ساتویں مردم و خانہ شماری کے لئے ڈیجیٹل آلات کا استعمال کیا تاکہ متوقع و ممکنہ تنازعات کم سے کم ہوں لیکن یہ تدبیر بھی کام نہیں آ سکی۔ دوسری اہم بات یہ رہی کہ مردم شماری کے عمل میں صوبائی حکومتوں کو شامل کیا گیا اور مردم شماری کے فیلڈ آپریشنز پر عملدرآمد کی ذمہ داری صوبائی حکومت کو سونپی گئی اور اب صوبائی حکومتیں ہی اعتراض کر رہی ہیں تو اِس کا اخلاقی و آئینی جواز نہیں بنتا۔ مردم شماری جس ڈیجیٹل نظام کی مدد سے مکمل کی گئی اُس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس عمل کو جامع اور تیز رفتار بنانے اور صوبائی حکومتوں کی مدد کے لئے ادارہ شماریات نے اضافی افسران و اہلکار بھی تعینات کئے گئے اگرچہ مردم شماری کی زیادہ تر سرگرمیاں خوش اسلوبی (اطمینان) کے ساتھ سرانجام دی گئیں لیکن مردم شماری کے دوران‘ خاص طور پر بڑے شہروں میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی بھی ہوئی۔ سب سے عام مسائل فیلڈ شمار کنندگان کی اپنے کام کے تئیں لاپرواہی اور فیلڈ سٹاف کے لئے سیکورٹی اہلکاروں کی ناکافی تعیناتی تھی۔ عہدیدار نے صوبائی حکومتوں کو مطلع کیا کہ وہ گنتی کرنے والوں کی جانب سے کسی بھی غلط رپورٹنگ کا سختی سے نوٹس لیں‘ گنتی کرنے والوں کو سیکورٹی فراہم کریں اور متعلقہ اے سیز اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے فیلڈ گنتی کی سختی سے نگرانی کی جائے۔مردم شماری کے کوائف کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے ٹیلی فون کے ذریعے تصدیق کا عمل بھی کیا گیا۔ جس کے لئے خصوصی کال سنٹر بنایا گیا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور اِس سے غلط رپورٹنگ کی نشاندہی کرنے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے۔ مردم شماری مہینوں میں مکمل ضرور ہوئی ہے لیکن اِسے جامعیت کے ساتھ سرانجام دینے میں سالہا سال سے تیاری کا عمل دخل ہے۔ اُمید ہے کہ مردم شماری کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔