جمعرات کے روز وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے مند پشین بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر بارڈر مارکیٹ پلیس اور پولان گبد بجلی ٹرانسمیشن لائن کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے عزم کا اظہار کیا بعد ازاں پاک ایران سرحد پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایرانی صدر کے ساتھ دوطرفہ معاملات پر مفید گفتگو ہوئی۔ دونوں اطراف سے سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا برملا اظہار کیا گیا کہ ہمیں تجارت، سرمایہ کاری، آئی ٹی، زراعت اور دیگر معاشی میدانوں میں تعاون آگے بڑھانا چاہیے پاکستان اور ایران کے مابین 959 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو کہ ملک صالح سے شروع ہو کر خلیج عمان میں گوادر پر ختم ہوتی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر ہے، جسے کئی گنا تک بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر چہ مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان ابتدا سے تعلقات موجود ہیں اور گوادر کیلئے 100 میگاواٹ ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کا افتتاح اس کی ایک مثال ہے، جس سے بالخصوص بلوچستان کے عوام کو سہولت میسر آئے گی، تاہم عالمی پابندیوں کے باوجود دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور تجارت کو مزید وسیع کرنے کے کثیر مواقع موجود ہیں، بالخصوص ایران توانائی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کا اظہار کر چکا ہے اس پیشکش کو قبول کرنا خود پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ پاکستان کو اس وقت جس توانائی بالخصوص گیس و بجلی بحران کا سامنا ہے، ایسے میں ایران کا تعاون دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ نو سوکلومیٹر سے زائد طویل سرحد پر دونوں ملکوں کو سکیورٹی کے حوالے سے تعاون بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ماضی قریب میں سرحدی اطراف پر روایتی بارڈر مسائل مثلاً سمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے مسائل در پیش رہے ہیں۔ضروری ہے کہ ان مسائل کے حل کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران کے ساتھ تجارت کو بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں، مگر اس حوالے سے کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ کرنسی ہے۔ عالمی اقتصادی پابندیوں کے سبب پاکستان ایران کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز)نہیں کھول سکتا اس حوالے سے پاک ایران بارٹرٹریڈ معاہدے کو فروغ دیا جا سکتا ہے جبکہ دونوں ممالک کی مقامی کرنسیوں میں تجارت کی تجویز بھی کئی دہائیوں سے زیر غور ہے جس پر پیش رفت کی ضرورت ہے اگر دونوں ممالک مقامی کرنسی میں تجارت کا معاہدہ کرتے ہیں تو تجارتی حجم جو اس وقت دوارب ڈالر کے لگ بھگ ہے دس ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے اور اس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو مضبوط سہارا میسر آئے گا‘ ایران غذائی اجناس کا بڑا پیداواری ملک ہے اور پاکستان گزشتہ کئی سال سے متعدد غذائی اجناس بیرونِ ملک سے درآمد کر رہا ہے‘ باہمی تجارت کے فروغ سے یقیناً اس ضمن میں بھی سہولت میسر آئے گی اور ایران سے کم لاگت اور کم وقت میں اشیا درآمد کی جاسکیں گی۔ ضرورت محض اس امر کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار علاقائی تعاون کو بڑھانے میں سنجیدگی اختیار کریں اور ملکی مصنوعات کیلئے مغرب کی روایتی منڈیوں سے ہٹ کر بھی منڈیاں تلاش کریں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعاون کو فروغ دینا سکیورٹی کے نقطہ نظر سے بھی خاصا سود مند ثابت ہو سکتا۔