پاکستان میں مختلف ادورا میں مختلف صنعتی پالیسیاں سامنے آئیں، ایک وقت تھا کہ پی پی پی کو سوویت ماڈل سے نظریاتی فروغ ملا اور جب اس نے اقتدار سنبھالا تو اس نے 1960 کی دہائی کی صنعت کاری کی حکمت عملی کو تبدیل کیا۔ تمام بڑی صنعتوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کو قومیا لیا یعنی انہیں سرکاری تحویل میں لے لیاگیا۔ نجی شعبے کو ان صنعتوں اور شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں تھی اور بیوروکریٹس کو ان قومی اداروں کی سربراہی کے لئے مقرر کیا گیا تھا جنہیں سرکاری اداروں کا نام دیا گیا تھا۔بغیر کسی پیشگی تربیت کے، کاروباری اداروں کو چلانے میں پیشہ ورانہ تجربے کی کمی، خطرے سے بچنے، اور مناسب سطح پر فیصلہ سازی کے لیے اختیارات تفویض کرنے کے بجائے صنعتی اداروں کو کنٹرول کرنے کی پالیسی اپنائی گئی جو نہ اقتصادی طور پر قابل عمل تھی اور نہ ہی تجارتی طور پر۔اب آتے ہیں حالیہ حالات و اقعات کی طرف،بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر نے گزشتہ دو دہائیوں میں 9.0 فیصد کے مقابلے میں 3.0 فیصد سالانہ کی شرح نمو ریکارڈ کی ہے۔ ادائیگیوں کے توازن میں مشکلات بڑھ گئیں کیونکہ درآمدات میں چار گنا اضافہ ہوا اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان وسیع خلا کو بیرونی قرضوں سے پر کیا گیا۔1990 کی دہائی میں کئی اہم پیش رفت نے ترقیاتی پالیسی کے بارے میں سوچ کو تبدیل کیا۔ عالمگیریت کی ہواؤں نے بین الاقوامی تجارت کو آزاد کیا، مالیاتی بہا ؤکو کھولا، ٹیکنالوجی کی منتقلی میں آسانی پیدا کی اور بین الاقوامی نقل مکانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بتدریج دور کیا، ترقی پذیر ممالک میں ترقی کے امکانات اور غربت میں کمی کو مثبت طور پر متاثر کرنا شروع کیا۔ورلڈ بینک نے ایک بنیادی مطالعہ کیا، 'The East Asia Miracle'، جس میں مشرقی ایشیا کے خطے کے ممالک کی شاندار اقتصادی کامیابی کے ذمہ دار عوامل کو دستاویزی شکل دی گئی۔ چین، جو کہ روایتی سوشلسٹ ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے ایک بند معیشت تھی‘ نے معیشت کوکھولنے کا تجربہ کیااور خود کو بین الاقوامی معیشت میں ضم کرنا شروع کر دیا اور ملکی منڈیوں کو مسابقتی قوتوں کے لیے کھول دیا۔ تجارتی بہا ؤکو آزاد کرکے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے اور نجی شعبے کو فروغ دے کر، پیداوار اور پروسیسنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی کو اپنا کر، دیہی گھرانوں کو حکومت کی ہدایت کے بغیر زرعی اجناس اُگانے کی ترغیب دے کر اور مقامی افراد کو بااختیار بنا کر ہر شعبہ زندگی میں انقلاب برپا کیا۔چین اپنی آبادی کا معیار زندگی بلند کرکے اور 700 ملین لوگوں کو غربت سے نکال کر بے مثال ترقی کرنے میں کامیاب رہا۔ چین کی فی کس آمدنی 1980 سے 54 گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی جی ڈی پی آج امریکہ کے برابر ہے۔ پاکستان جو کہ چین کے پڑوس میں واقع ہے اور خوش قسمتی سے چین کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات میں جڑا ہوا ہے کو بھی چین کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے اور جہاں تک صنعتی پالیسی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں چین نے جس طرح وقت کے بدلتے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اقدمات اٹھائے ہیں پاکستان اس کی پیروی کرے تو ہمارے ہاں بھی مضبوط صنعتی ڈھانچہ سامنے آسکتا ہے اور پھر سی پیک میں تو براہ راست چین خود ملوث ہے اسلئے سی پیک میں صنعتی بستیوں کا جال پھیلا کر ہم معاشی انقلاب سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔