گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے ژوب میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے قافلے پر ہونے والا خود کش حملہ نہ صرف قابل افسوس، بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ خوش قسمتی سے سینیٹر سراج الحق اس حملے میں محفوظ رہے، لیکن جماعت کے سات کارکنان زخمی ہو گئے۔ شواہد یہی بتاتے ہیں کہ یہ حملہ ایک سوچی سمجھی اور مذموم کارروائی تھی، جس کا مقصد ملک میں بے چینی پھیلانا تھا، گو کہ ملک گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، اور افواج پاکستان ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں، لیکن نظر آرہا ہے کہ ملک میں پھیلی سیاسی بے چینی، دہشت گرد عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا موقع فراہم کر رہی ہے۔بلا شبہ قوم کے بہادر سپوت ہر روز دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، لیکن ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے یہ قربانیاں بھی رائیگاں جاتی محسوس ہوتی ہیں۔ نومبر میں جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر جوان ان دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں لیکن ضروری ہے کہ عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی افواج کی پشت پر کھڑے ہوں۔ اس ضمن میں ملک کی سیاسی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاسی رسہ کشی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مفاد اور سلامتی کی خاطر یکجا ہو تاکہ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے یکسوئی کے ساتھ بیرونی محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں۔ کل ہی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم حکمران سیاسی جماعت کی قیادت پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، یہ سیاسی انارکی پھیلانے اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی سازش ہے، جہاں تک سراج الحق کا تعلق ہے، وہ ملک میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لئے نمایاں آواز ہیں، ان کا وجود ملک میں شرافت اور جمہوریت کے لئے غنیمت ہے، اللہ ان کو طویل زندگی عطا فرمائے، ان جیسی شخصیت پر قاتلانہ حملہ لمحہ فکریہ ہے۔