عالمی موسمیاتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج اور ال نینو موسمیاتی رجحان کی وجہ سے 2023 سے 2027 تک کے پانچ سال انسانی تاریخ کا گرم ترین دور ثابت ہونگے۔ اس عرصہ کے دوران زمینی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے تجاوز کر سکتا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا میں صحت، خوراک اور پانی کے انتظام اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے لانے کیلئے 2015 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جس پر عملدرآمد کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا تدارک نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار دس ممالک میں سرفہرست ہے اور گزشتہ برس طوفانی بارشوں اور
سیلابوں کی صورت میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی دیکھ بھی چکا ہے۔ ہمارے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے گلیشیر بھی پگھل رہے ہیں۔ جبکہ موسمیاتی اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جنگلات میں اضافہ اولین ترجیح ہونی چاہیے اور یہ کام سرکاری اور نجی سطح پر برابر کیا جانا چاہئے ساتھ ہی ساتھ گرین انرجی پر منتقلی بھی بہت ضروری ہے جس سے نہ صرف ایندھن کی کھپت کم ہوگی بلکہ ماحول دوست ہونے کی وجہ سے فضائی آلودگی میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔تحفظ جنگلات کے حوالے سے اہم قدم کے طور پریورپی یونین نے سن دو ہزار بیس کے بعد جنگلات کاٹ کر حاصل کی جانے والی زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کی خلاف وزری کرنے والی یورپی کمپنیوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔یورپی یونین ایسے علاقوں سے کافی، لکڑی اور پام آئل جیسی مصنوعات کی درآمد پر آئندہ عملی پابندی عائد کر دے گی، جہاں ایسی اجناس کی پیداوار کو ممکن بنانے کے لئے 2020 کے بعد جنگلات کا صفایا کر دیا گیا ہو۔ یورپی یونین کے رکن ممالک
نے یورپی پارلیمنٹ میں مذاکرات کے بعد اس اقدام کی باضابطہ طور پر منظوری دے دی۔ اس یورپی درآمدی پابندی کا مقصد جنوبی امریکہ میں ایمیزون کے علاقے سمیت دنیا بھر میں بارانی جنگلات کی کٹائی میں نمایاں کمی لانا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر جنگلات کے خاتمے اور جنگلاتی رقبے میں کمی کا اصل محرک زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی زمین میں توسیع کی کوششیں ہیں جن کا راستہ روکنا ضروری ہے۔یورپی یونین کی فیصلہ کردہ یہ پابندی جنگلات کے ذریعے حاصل کردہ دیگر مصنوعات جیسے چاکلیٹ، فرنیچر یا شائع شدہ کاغذ پر بھی لاگو ہو گی۔ اس پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین میں کسی بھی متعلقہ کمپنی کو اپنی سالانہ آمدنی کا کم از کم بھی چار فیصد تک حصہ بطور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔