پاکستان کیلئے بہترین موقع

پاکستان کو اپنے محل وقوع کی مناسبت سے جو سٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے کی ضرورت ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس وقت چین دنیا میں اثر و رسوخ اور ٹیکنالوجی میں سبقت کے لحاظ سے سرفہرست ہے اور اس کا مقابلہ امریکہ کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں جاری ہے جن میں اب تازہ ترین اضافہ مصنوعی ذہانت کا شعبہ ہے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان کیلئے مواقع کی بات کی جائے آئیے چین اور امریکہ کے درمیان مقابلے کو کون جیت رہا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت اتنا اہم موضوع بن چکا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں جی سیون سربراہی اجلاس، جہاں پہلے ہی بہت مصروف ایجنڈا چل رہا تھا، وہاں بھی اسے زیرِ بحث لایا گیا۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں خدشات امریکہ کی جانب سے اہم ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔فی الحال ایسا لگتا ہے کہ امریکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دوڑ میں آگے ہے اور اس بات کا امکان پہلے ہی موجود ہے کہ چین کو سیمی کنڈکٹر کی برآمدات پر موجودہ پابندیاں ٹیکنالوجی کی دنیا میں بیجنگ کی ترقی کو روک سکتی
 ہیں۔لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق چین اس دوڑ میں آگے نکل سکتا ہے کیونکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مشتمل کسی بھی پروڈکٹ کو مکمل ہونے میں برسوں لگتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق چینی انٹرنیٹ کمپنیاں امریکی انٹرنیٹ کمپنیوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس طرح ترقی کی پیمائش کر رہے ہیں۔امریکہ کو سب سے بڑا فائدہ سلیکون ویلی کا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے۔ گوگل، ایپل اور انٹیل جیسے ٹیکنالوجی کے بڑے ناموں نے یہیں سے شروعات کی اور جدید زندگی کو تشکیل دینے میں مدد کی۔ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس ریسرچ کے  مطابق  ملک میں ژ نئی ایجادات کی خواہش رکھنے والوں کو اس کی منفرد تحقیقی ثقافت سے مدد ملی ہے اورمحققین اکثر، برسوں تک کسی پروڈکٹ کو ذہن میں رکھے بغیر ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔چینی مصنوعات کے صارفین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ اس کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جہاں تقریبا ً1.4 ارب لوگ رہتے ہیں۔مثال کے طور پر، ملک میں تقریبا ًہر کوئی سپر ایپ وی چیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ صارفین ٹیکسٹ میسجز بھیجنے سے لے کر ڈاکٹر سے وقت لینے اور ٹیکس جمع کروانے کے لئے بھی یہی استعمال کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں معلومات کا ایک خزانہ ہاتھ آتا ہے جو مصنوعات کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپیوٹر چپس یا سیمی کنڈکٹرز، اب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بہت زیادہ تنا ؤکا باعث ہیں۔ وہ روزمرہ کی مصنوعات بشمول لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز میں استعمال ہوتے ہیں اور ان میں  دفاعی ایپلیکیشنز ہو سکتی ہیں۔ وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سیکھنے کے لئے ضروری ہارڈویئر کے لئے بھی اہم ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان اس
 وقت جو مقابلہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاری ہے اس کے اثرات ترقی پذیر ممالک کیلئے بہت خوش آئند ہوسکتے ہیں کیونکہ چین ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کے حوالے سے بہت موثر پالیسی رکھتا ہے اور وہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو بھی ان ممالک کے استعمال کیلئے پیش کرسکتا ہے جو اس وقت جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن کو چینی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے جب کہ دوسری  طرف امریکہ اس جدید اور مہنگی ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے سخت پالیسی رکھتا ہے۔امریکہ کا ٹریک ریکارڈ دوست ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں اور اگر بات کی جائے پاکستان کی تو بجائے اس کے کہ امریکہ پاکستان ایک دیرینہ دوست ملک کی حیثیت سے جدید ٹیکنالوجی میں مدد فراہم کرے الٹا اس نے پاکستان پر ماضی میں پابندیاں لگا کر ا س کا راستہ ہی روکا ہے۔ تاہم اس کا نتیجہ ہر وقت خودکفالت کی طرف سفر کی صورت میں سامنے آیا ہے۔