وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کراچی میں کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ منہ چھپا کر کہاں جائیں‘ وزیر اعظم کے یہ الفاظ ان کی تشویش کی واضح عکاسی کرتے ہیں مگر مہنگائی کے مارے عوام کو وزیر اعظم سے صرف دلاسا درکار نہیں، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی مشکلات کا کوئی چارہ کرے‘ رواں مالی سال کے معاشی اشاریوں کا گزشتہ سال سے تقابلی جائزہ تشویشناک حالات کی واضح عکاسی کرتا ہے‘حال ہی میں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے رواں مالی سال کے معاشی اہداف اور کارکردگی کے گوشوارے جاری کئے گئے ہیں، جو یہ دکھاتے ہیں کہ افراط زر کے سوا معیشت کے کسی اشاریے میں اضافہ نہیں ہوا‘ حکومت اس صورتحال کا جواز کبھی عالمی حالات میں تلاش کرتی ہے اور کبھی گزشتہ برس کے سیلاب میں‘ یقیناً ان کے اثرات کو رد نہیں کیا جاسکتا، مگر معاشی ترقی کی شرح جو ایک سال میں چھ فیصد سے کم ہو کر 0.3 فیصد تک اور افراط زرقریب 20 فیصد سے بڑھ کر 36.4 فیصد تک کیسے ہوئی؟ حکومت اگر ان معاملات پر توجہ دے تو مہنگائی یقیناً اس خوفناک سطح تک نہ پہنچ پائے کہ ہمارے وزیر اعظم کو مزیدتشویش میں مبتلا کر دے‘ بد قسمتی یہ ہے کہ معاشی حقیقتیں ایسی کٹھور ہیں کہ نظر چرانے یا منہ چھپانے سے تبدیل نہیں ہوتیں‘ ان کی تبدیلی حالات کی تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے جس کیلئے حکومت کی کل وقتی دلچسپی اور سنجیدگی درکار ہے‘ کیا ان حالات میں ایسا کچھ دکھائی دیتا ہے؟ اس کا جواب گزشتہ اور رواں مالی سال کے معاشی اعداد و شمار ہی میں موجود ہے‘ حکومت کو آنے والے سال کے معاشی حالات کی فکر کرنی چاہیے جو خسارے سے بھر پور ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح افراط زر اور کم ترین معاشی نمو کی بنیاد پر شروع ہونے جا رہا ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے اور ماہرین معیشت اگر چہ آنیوالے سال کیلئے بھی کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے اور یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ آئندہ برس میں نمو کی شرح دو فیصد تک پہنچ پائے گی جو پاکستان کو بدستور اس خطے میں کم ترین شرح نمو والے ممالک کی صف میں کھڑا رکھے گی۔ آج قریب پچیس کروڑ آبادی (حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 24 کروڑ 95لاکھ 66 ہزار کے قریب) کے ساتھ ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں، مگر جی ڈی پی کے لحاظ سے بیالیسویں نمبر پر، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے ہم پلہ یا اوپر کے ممالک جی ڈی پی کے لحاظ سے کہیں بلند سطح پر ہیں‘ مثال کے طور پر آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آنے والا برازیل جی ڈی پی کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے‘آبادی میں چوتھے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا جی ڈی پی میں سولہویں جبکہ تیسرے دوسرے اور پہلے نمبر پر آنیوالے امریکہ بھارت اور چین جی ڈی پی میں پانچویں دوسرے اور پہلے نمبر پر ہیں‘ اس تفصیل سے یہ نظر آتا ہے کہ آبادی میں دنیا کی بلند ترین پوزیشن اور معیشت میں متوسط سے بھی نچلے درجے میں رہ کر ہم ایک ایسی صورتحال کو تخلیق کر رہے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر معاشی استحکام اور اطمینان کا تصور محال نظر آتا ہے۔