وزیراعظم کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملکی معیشت بجلی کا سوئچ نہیں ہے کہ آن کرنے سے سب اچھا ہو جائے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج کل دنیا کے تمام ممالک باہم جڑے ہوئے ہیں ۔اس وقت عالمی معیشت جس مشکل دور سے گزر رہی ہے اس کے اثرات یقینا پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور اس سے بچنے کا کوئی راستہ بھی نہیں۔ وزیر خزانہ اپنے سابقہ دور میں مشکل حالات سے کامیابی کے ساتھ ملک کو باہر نکالنے میں کامیاب رہے اور اب بھی یہ ممکن ہے ۔اپنے گزشتہ دور وزارت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس دور میں بھی وقت لگا تھا لیکن چیزیں درست ہو گئی تھیں، وزیر خزانہ کے بیان میں امید کی جو جھلک نظر آرہی ہے اسی کے سہارے ملک کا شہری مشکل دور کو برداشت کررہا ہے۔
تاہم امیدوں اور توقعات کے ساتھ ساتھ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کچھ دیگر لوازمات بھی ضروری ہیں اور چیلنج اگر معیشت کو مستحکم کرنے کا ہو تو حقائق کی زمین پر قدم بہ قدم آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ معیشت کی موجودہ صورتحال کو 2013
کے تناظر میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح اس وقت انہیں معیشت کو استوار کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اس بار بھی ہو گی اور ان کا یہ موقف درست بھی ہے تاہم عالمی صورتحال جو معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے آج کی نسبت بڑی حد تک مختلف تھی۔ مالی سال 2017 تک پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ فیصد سے تجاوز کر گئی تھی، جو نو سال کی بلند ترین سطح تھی، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 24/23 ارب ڈالر تک پہنچ گئے افراط زر کی شرح چار سے پانچ فیصد تھی اور پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہونے لگا تھا۔ مگر اب کی صورتحال
یہ ہے کہ جی ڈی پی کی نمو 0.3 فیصد پر آچکی ہے، جو 2020 کے کورونا کی عالمگیر وبا والے سال کے استثنیٰ کے ساتھ 1970 کے بعد ملک کی کم ترین شرح نمو ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ترین سطح پر ہیں جبکہ افراط زر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملکی معیشت کی یہ غیر معمولی صورتحال غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے، مگر یہ کام صرف اشیائے ضروریہ پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے یا انفرادی آمدنی اور صنعت و کاروباری سرگرمیوں پر محصولات میں اضافہ کرنے سے ممکن نہیں، اس کیلئے دیر پا اقدامات ضروری ہیں۔ حکومت کے پاس 2013 سے 2017 تک کے دورانیے کی مثال موجود ہے جس سے مدد لی جا سکتی ہے تاہم ایک نکتہ قابل غور ہے کہ اس دور کی حکومت کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ بڑے فیصلے لینے، منصوبے شروع کرنے اور ان کے ثمرات اٹھانے کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی ۔ آج کے حالات میں سب سے بڑی
مشکل ہی یہ ہے کہ حکومت کی آئینی ٹرم آخری برس میں ہے۔ اگلے کچھ روز میں قومی اسمبلی اپنا آخری بجٹ پیش کر دے گی اور دو ماہ بعد اسمبلی کی آئینی مدت تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اپنی ٹرم کے اختتام کے کنارے پر کھڑی حکومت کیلئے عملاً بڑے اقدامات ممکن نہیں، دوسری جانب ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ بے یقینی اور عدم استحکام کے اندیشے کم ہونے کا نام نہیں لیتے ۔ اس صورتحال میں معیشت کے استحکام ناممکنات میںسے نہیں تاہم مشکل ضرور ہے کیونکہمعاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے۔وزیر خزانہ اسحق ڈار کے یہ الفاظ یقینا قابل غور ہیں کہ جب بھی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کی اس تشویش میں کوئی شبہ نہیں، قومی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور المیوں سے سیکھیں اور یقینی بنائیں کہ پاکستان سانحات سے محفوظ رہ کر آگے بڑھتا چلا جائے۔