وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کے بروقت اقدامات سے ڈالر کی قدر میں غیر معمولی صورتحال گزشتہ روز سے قابو میں ہے۔ بدھ کے روز تک اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید 315 اور قیمت فروخت 325 روپے تک پہنچ چکی تھی ،جبکہ انٹر بینک ریٹ 285 کے لگ بھگ تھا، مگر گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر 299 روپے کی سطح پر آگیا لیکن انٹر بینک ریٹ تقریباً ایک روز پہلے والی سطح پر برقرار تھا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ایک روز میں ڈالر کی قدر میں قریب 26 روپے کمی واقع ہوئی۔ یہ اپنے آپ میں ایک حیران کن واقعہ ہے مگر جہاں اس گراوٹ کو دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے وہیں یہ اندیشے بھی موجود ہیں کہ پچھلے چند روز کے دوران جس طرح ڈالر کے بھاﺅ میں ہنگامی صورت بپا تھی، آنے والے دنوں میں کہیں پھر ایسا نہ ہو جائے۔ ان اندیشوں کا سد باب وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کے بر وقت اور موثر اقدامات سے ممکن ہے۔ گزشتہ روز ڈالر کے بھاﺅ میں غیر معمولی کمی کا حکومت کے اس فیصلے سے گہرا تعلق ہے جس میں بینکوں کو پابند کیا گیا کہ کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی کیلئے ایکس چینج کمپنیوں کے بجائے انٹر بینک سے ڈالر خریدے جائیں؛ اس فیصلے سے فوری طور پر جو اثرات مرتب ہوئے انہوں نے حیران کر دیا لیکن روپے کی قدر میں فوری استحکام کی خوشی اپنی جگہ مگر یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہماری معیشت میں کس قدر وسیع خلاءاور گہری دلدلیں پائی جاتی ہیں۔ صرف کریڈٹ کارڈ کی ادائیگیوں کے معاملے میں سدھار سے اتنا وسیع فرق سامنے آتا ہے تو اور کیا کچھ نہ ہو گا، اس کیلئے مزید موثر اور تیر بہدف اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کی نشاندہی اور درست فیصلوں سے ان کا ازالہ کیا جائے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ روز میں حکومت نے معیشت کے معاملے میں جو موثر فیصلے کئے ہیں ڈالر کی قدر میں استحکام کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات اور یوٹیلیٹی سٹور پر کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں نمایاں کمی بھی ان میں قابل ذکر ہے۔ اس سلسلے میں ایل پی جی کے نرخوں میں 37 روپے فی کلو کمی کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ یہ مصنوعات ایسی ہیں شہری کی جیب پر جن کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے‘ چنانچہ قیمتوں میں حالیہ گراوٹ کے اثرات مہنگائی کی کمی کی صورت میں ضرور سامنے آئیں گے؟ تا ہم اس سلسلے میں حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام شہری تک پہنچیں۔ اس کیلئے حکومت کو کچھ انتظامی اقدامات کی ضرورت ہوگی تاکہ قیمتوں میں کمی کے فیصلوں کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے اور لوگ ان سے استفادہ کر سکیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں معمولی اضافے کے ساتھ ہی روز مرہ استعمال کی بیشتر اشیا ءکے نرخوں میں بلا تاخیر اضافہ کر دیا جاتا ہے اب جبکہ پٹرول، ڈیزل کے نرخوں میں بڑی حد تک کمی کی گئی ہے تو ضروری ہے کہ ٹرانسپورٹ کے کرائے اور خوراک کی اشیاءکے نرخوں میں بھی کمی کی جائے۔ حکومت کو اس معاملے میں واضح ہونا چاہیے کہ عوام کے حقوق کی حفاظت حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ مہنگائی جو اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے حکومت کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق مئی میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور یہ 37.97 فیصد پر پہنچ گئی۔ مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح اضافہ اشیائے خوراک میں نظر آتا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر گندم کی قیمت میں 94.8 فیصد چاول 85.18 فیصد انڈے 90.27 فیصد جبکہ آلو کی قیمت میں 108 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تو مان لیا کہ یہ اشیا عالمی منڈی کے بھاﺅ خرید نا پڑتی ہیں، مگر خوراک کے معاملے میں تو ہمیں ضرور خود کفیل ہونا چاہیے تا کہ طلب رسد کے مسائل نہ ہوں اور لوگوں کو اچھی خوراک مناسب نرخوں میں مل سکے۔ ایسا ممکن ہے بشرطیکہ خوراک کے پیداواری شعبے پر توجہ دی جائے۔