سفر کوئی ٹھکا نہ چا ہتاتھا 




اور اب تو ہر نیا دن ایک نئی خبر کے ساتھ طلوع ہوتا ہے ،اس لئے اب یار لوگ خبر دیکھنے یا سننے کے لئے کبھی بے چین نہیںرہتے، کیونکہ اب تو ایک مدت سے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ایک سے ایک نئی اور انوکھی خبر سماعتوں اور بصارتوں کو یرغمال بنائے رکھے ہوئے ہے یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب خبر کے لئے ایک طویل انتظار کرنا پڑتا تھا اخبارات دن بھر رپورٹرز کے منتظر رہتے کہ کہیں سے کوئی اہم خبر ملے۔
 گویا خبر کی تلاش ایک اہم کام ہوا کرتا اس وقت یہی بات ہر ایک زبان پر ہوتی کہ کون جانے، کون سے لمحہ کی مٹھی میں کونسی خبر چھپی ہوئی ہے اس زمانے میں تو گھر آنے والے خط کی وجہ سے بھی لفافہ کھلنے تک دل کی عجب حالت ہوتی کہ اللہ جانے خط کیا خبر دیتا ہے خصوصاََ جن گھروں میں پڑھے لکھے ا فراد نہ ہوتے تو ڈاکیہ ہی سے پڑھوا لیا جاتے یوں ڈاکیہ گھر کا ایک باخبر فرد ہوا کرتا لیکن اب ہم ’ جگنو کو دن کے وقت پرکھنے والے چالاک بچوں ‘ کے دور میں زندہ ہیں جو سوال و جواب میں ماں باپ تو ایک رہے دادا دادی اور اساتذہ کے کان تک کترنے لگے ہیں، اور اب ہم ” فوری خبروں “ کے حصار میں ہیں اور یہ خبریں اخبارات یا نیوز چینلز تک محدود نہیں رہیں سوشل میڈیا خبروں کے معاملے میں سب سے آگے ہے اس لئے جن بزرگوں نے نئی ہوا کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں یکسر بند کر دی ہیں ان کو آج یقیناََ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مشکلات ان کے لئے بھی کچھ کم نہیں جو نئی نسل کے سنگ چلنے کی اپنی سی سعی کررہے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اعصابی نظام اتنا فعال اور چوکس نہیں رہ پاتا ، جتنا تنو مند جوانوں کا ہوتاہے ،اور میں نے تو خیر پہلے ہی دو ٹوک انداز میں غالب کی طرح یہ کہہ کر اپنے قویٰ کے مضمحل ہونے کا اعتراف کیا ہوا ہے کہ
 اب تو دو چار قدم چلتے ہیں تھک جاتے ہیں
 زندگی تجھ سے بھی رفتار زیادہ تھی کبھی
نئے دور کے تقاضے بھی یقیناََ اور سے اور ہو گئے 
ہیں اور اب خبر کے رنگ ڈھنگ بھی الگ سے ہو گئے ہیں ابھی کچھ دن قبل مجھے ایک دوست نے ایک عجیب کہانی سنا کر حیران کر دیا وہ کہہ رہے تھے کہ ایک شام دن بھر دفتر میں سر کھپانے 
کے بعد گھر پہنچا چینج کر کے حسب معمول بیگم چائے لے آئی ، ابھی میں چائے سے پورے دن کی تھکن اتار بھی نہیں پایا تھا کہ کہنے لگی چائے پی کر جلدی سے تیار ہو جائیں ، ابھی ہم نے امی کے گھر جانا ہے ، پوچھا خیریت ؟ ابھی میں تھکا ہوا ہوں کل اتوار ہے چلے جائیں گے، بیگم بولیں نہیں ابھی چلتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں کچھ گڑ بڑ ہے، میں نے پھر پوچھا کوئی فون یا میسج آیا ہے کہنے لگی نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ وہاں سب ٹھیک نہیں ہے، حکم حاکم کے آگے کہاں کی تھکن کہاں کے بہانے طوعاََ و کرہاََ جانا پڑا ، وہاں پہنچ کر حیرانی ہوئی کیو نکہ بیگم کا اندازہ سو فی صد درست تھا وہاں ساس بہو کی روایتی چپقلش نے جھگڑے کا روپ دھار ا ہوا تھا، ہمیں اچانک دیکھ کر دونوں ایک لمحے حیران بھی ہو ئیں، مگر جلد ہی بہو نے سنبھل کر کہا کہ ” اچھا۔ تو ٹیلی فون کھڑک چکے ، اپنے حمایتیوں کو بھی بلا لیا گیا “ لاکھ کہا کہ ہمیں کسی نے نہیں بلایا کوئی فون نہیں آیا مگر کوئی سنے بھی توکچھ د یر بعد حالات نارمل ہوئے تو ہم لوٹ آئے، میں نے راستے میں بیگم سے پوچھا ، امی کا فون آیا تھا کیا؟ کہنے لگیں ، نہیں تو، میں نے کہا توپھر آپ کو کیسے خبر ہوئی کہ وہاں گھر میں کچھ گڑ بڑ ہے کہنے لگی، میں نے اپنی بھابھی کا واٹس ایپ کا سٹیٹس دیکھا تھا، میں نے کہا وہ تو سارا دن آپ کسی نہ کسی کا سٹیٹس دیکھتی رہتی ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہنے لگی، اب تو واٹس سایپ کا سٹیٹس ہی مرغ باد نما ہے اور یہ طبیعتوں کا رخ بتاتا ہے یہ بیک وقت ڈائری بھی ہے، البم بھی ہے،پیغام رساں بھی ہے،مزاج شناس بھی اور مزاج فہم بھی ہے، بس ایک بار اس کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے، یہ دوستوں کو قریب 
بھی لاتا ہے اور دور بھی کر دیتا ہے اور یہ بھی لگتا ہے ناصر کاظمی نے اسی کے بارے میں پہلے سے ہی کہہ رکھا ہے ۔
دوستوں کے درمیاں
 و جہ ِ دوستی ہے تو
اور وجہ ¿ دشمنی بھی یہی ہے، اتنی معلومات افز ا تقریر سن کر میں متاثر تو ہوا لیکن اصل بات کا تو پتہ ہی نہ چل سکا کہ آخر بیگم کی بھابھی نے سٹیٹس پر کیا گوہر افشانی کی تھی، اس لئے پھر استفسار کیا کہ آخر اس نے ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ آپ بھاگی بھاگی گھر گئیں اور آپ کا اندازہ سو فی صد درست ثابت ہوا، کہنے لگے بھابھی نے سٹیٹس پر ہندکو زبان میں لکھا تھا، ” اپڑیاں ماواں ٹھنڈیاں چھاواں “ بس میں سمجھ گئی کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ میں نے کہا یہ تو صدیوں پرانی بصیرت ہے،کہاوت ہے ، اور روز کوئی نہ کوئی کہتا رہتا ہے، اگر بھابھی نے لکھ دیا تو کیا ہوا، ؟یہ سن کر میری بیگم نے مجھے لا جواب کر دیا ” تو کیا میرا اندازہ غلط تھا “ پھر کہنے لگی ،یہ در اصل ایک کوڈ ہوتا ہے خفیہ پیغام ہو تا ہے، یہ اپنے بہن بھائیوں کے لئے بھی ایک خبر ہوتی ہے کہ میں عذاب میں گھری ہوئی ہوں ،جس کے رحم و کرم پر مجھے ڈال گئے ہو وہ ساس ہے ، بھابھی کے بہن بھائی باہر ہیں انہوں نے یقیناََ بھابھی کے ساتھ ساتھ میرے بھائی کی بھی خبر لی ہو گی۔ میرا دوست مجھ سے پوچھنے لگا ، یار یہ ہم کس عہد میں سانس لے رہے ہیں خبر رسانی کا یہ کون سا انداز ہے جس میں ہر شے اپنے معانی بدل رہی ہے، ہر چیز اپنا کام بدل رہی ہے، نام بدل رہی ہے، میں اسے کیا بتاتا، کیونکہ میں خود بھی نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگی کی کوشش میں اکثر تنہا رہ جاتا ہوں پھر بھی میں نئے دور کے نئے تقاضوں سے خود کو یکسر الگ نہیں کر سکتا اگر چہ کبھی کبھی دل بہت چاہتا ہے کہ میں بھی کچھ دوستوں کی طرح لا تعلقی کی بکل مار کر ایک طرف بیٹھ جاو¿ں مگر دوسرے ہی لمحہ سر جھٹک کر کسی نئے پراجیکٹ کا آغاز کر بیٹھتا ہوں، کیونکہ تماشے(شو) کو پردہ گرنے تک چلتے رہنا چاہئے حالانکہ میں جانتا ہوں اور اس کا اظہار بھی بہت پہلے کر چکا ہوں۔
تھکن پیروں سے اٹھ کر دل سے لپٹی 
 سفر کوئی ٹھکانہ چا ہتا تھا