مالی سال 2023 تو جیسے تیسے گزرنے کو ہے، مگر آنے والے مالی سال کے چیلنجز رواں سال سے زیادہ کڑے ہوں گے۔آنےوالے کئی سالوں میں ہر سال واجب الا دا بیرونی قرضوں کا حجم چوبیس ارب ڈالر کے لگ بھگ رہے گا۔ ان ادائیگیوں میں ناکامی سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ برآمدات، بیرون ملک سے ترسیلات اور براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے، مگر برآمدات، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری سال بہ سال کم ہو رہی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے دس ماہ کے دوران برآمدات میں قریب 12فیصد، ترسیلات زر میں 13 فیصد اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں 23 فیصد کمی آئی۔ زر مبادلہ کی آمدنی کے وسائل کی گراوٹ کو حکومت درآمدات کو روک کر قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس طرح کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں تو کمی واقع ہو جاتی ہے مگر درآمدات کی بندش کے معاشی نمو پر منفی اثرات کو رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صنعتوں کیلئے خام مال اور دیگر ضروری سامان کی درآمدات رکنے سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ رواں سال
در آمدی اہداف میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے خاص طور پر ٹیکسٹائل اور ملبوس سازی کی صنعتوں کو اس صورتحال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ بعض کیسز میں چند ہزار ڈالر مالیت کے درآمدی سامان میں رکاوٹوں سے لاکھوں ڈالر کے برآمدی آرڈر تعطل کا شکار ہوئے؛ چنانچہ درآمدات روکنے کی حکمت عملی زرمبادلہ کی قومی آمدنی بڑھانے کا نسخہ نہیں، نہ ہی اس طرح آئندہ چند برس کے دوران ادائیگیوں کی بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب قومی معیشت کی جامع حکمت عملی پر کام کیا جائے جس میں برآمدات بڑھانے درآمدات کم کرنے، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات بڑھانے اور بیرون ملک سے زیادہ سرمایہ کاری لانے کی منصوبہ بندی شامل ہو۔ اس کیلئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہو گی جن میں معیشت کو دستاویزی بنانے کے اقدامات کی بنیادی اہمیت ہے۔ ہمارے متعدد بڑے معاشی شعبے مثال کے طور پر پر چون فروشی، ٹیکس نیٹ ہی میں نہیں جبکہ دیگر کئی شعبے جو اگر چہ ٹیکس نظام کی نظر میں دستاویزی ہو چکے ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح یہاں پرٹیکس سے بچاﺅ کا راستہ نکالا جاتا ہے ۔ چنانچہ معیشت کی ڈاکومینٹیشن کے اقدامات کو نہایت سنجیدگی سے لینا ہوگا تا کہ جو شعبے ٹیکس سے باہر ہیں انہیں بھی نظام میں شامل کیا جائے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ترسیلات بڑھانے اور ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے، معدنی وسائل جو ہمارے ملک کا ایک بڑا اثاثہ ہیں مگر آج تک ہم اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے نہ ہی جغرافیائی اور بحری وسائل سے، ان شعبوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اس طرح زرعی شعبہ جس پر توجہ نہ دینے کا
نتیجہ یہ ہے کہ سالانہ قریب 10 ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمدات پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ اگر زراعت پر توجہ دی جائے تو خوراک کے درآمدی اخراجات میں خاطر خواہ کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو سکتا‘ ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو آنیوالے برسوں میں ہمیں ڈیفالٹ سے بچا سکتے ہیں۔ اگر عالمی مالیاتی اداروں کی پیچیدہ شرائط سے ملکی معیشت کو بچانا اور عوام کوریلیف دینا ہے تو یہی عمل کا راستہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھا بحیثیت قوم ہمیں کفایت شعاری کو پانی زندگی کا حصہ بناناہوگا۔ کیونکہ ملکی وسائل پر بوجھ کو ہم کفایت شعاری سے کم کرسکتے ہیں اور جس قدر ملکی وسائل پر بوجھ کم ہوگا اس قدر مہنگائی میں کمی ہوگی اور ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ہم ملکی وسائل سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر رہے۔ بہت سے ایسے شعبے ہیں جن میں مربوط اور منظم منصوبہ بندی سے کفایت شعاری کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اس قدم کو جس قدر جلد اٹھایا جائے اس قدر اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے ۔