قومی اقتصادی کونسل کے حالیہ اجلاس میں ملک بھر میں کاروباری مراکز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ معیشت اور توانائی کے مسائل کے تناظر میں یہ اہم فیصلہ ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کے تحفظات اور انکے موقف کو بھی مدنظر رکھا جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں اور کوئی ایسادرمیانہ راستہ نکل سکتا ہے جس سے توانائی کی بچت بھی ہو اور کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر نہ ہوں ایک اندازے کے مطابق کاروباری مراکز رات 8 بجے بند کرنے سے توانائی کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت کی جاسکتی ہے۔ توانائی اور زرمبادلہ کی بچت کے اس خیال کے تحت ماضی میں بھی کاروباری مراکز جلد بند کرانے کے اعلانات ہوتے رہے ہیں، لیکن کوئی بھی حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی نہیں بنا سکی۔ اس کی جو وجوہ ہیں، ہم جانتے ہیں، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ مارکیٹیں رات گئے تک کھلی رکھنے سے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں، ایک یہ کہ دن کی روشنی کا بیشتر حصہ ضائع ہو جاتا ہے دوسرا یہ کہ بے وقت کا روبار کرنے پر توانائی کی مد میں بھاری اخراجات آتے ہیں، مگر اس سے بڑھ کر اس کا ہماری سماجی زندگی پر نہایت منفی اثر یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی رات کو جاگنے اور دن کو سونے والی قوم بن چکے ہیں، اور یہ خلاف فطرت عادت ہماری انفرادی صلاحیتوں پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ انفرادی طور پر کم کار کردگی اور پژمردگی اسکا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک سورج نکلنے کیساتھ معاشی سرگرمیاں شروع کرتے اور دن ڈھلے کام بند کر دیتے ہیں۔ ہمارے دین کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ صبح فجر کے بعد کام کی شروعات کی جائیں، لیکن ہم دینی تقاضے اور دنیاوی اصول فراموش کرکے اپنے لئے اور قومی سطح پر خسارے میں ہیں، ہمیں اس طرز عمل کو ترک کرکے، دنیا کی پیروی کرنا ہوگی اور اس کیلئے حکومتی سطح پر اس فیصلے پر عمل کرانے کے لئے سب کو تعاون کرنا چاہئے۔ قدرت نے دن کو کام اور رات کو آرام کیلئے مقرر کیا ہے اور یہی فطری زندگی کے تقاضے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دن کے حصے کو کام میں لایا جائے اور سورج جیسے توانائی کے بڑے ذریعے سے فائدہ اٹھائیں اور پھر رات آرام کرنے کے بعد اگلے دن پھر صبح سویرے معمولات زندگی کا آغاز کیا جائے۔ سحر خیزی کا جو بھی عادی ہوجائے وہ پھر دیر سے نہیں اٹھے گا کیونکہ اس وقت کی تازہ ہوا میں ایک طرح سے توانائی اور چستی ہوتی ہے جو انسان کو دن بھر کی مشقت کیلئے تیار کرتی ہیں اور دیر سے اٹھنے والے یا دیر سے کام شروع کرنے والے اکثر اپنے آپ کوٹینشن کا مریض بنا دیتے ہیں۔اس تمام تناظر میںدیکھا جائے تو حکومت کا یہ فیصلہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے مترادف ہے اور ا س سے ضرور بالضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ویسے بھی ہمارے ہاں توانائی کی کمی کا مسئلہ سال بھر درپیش ہوتا ہے اس کابھی یہی حل ہے کہ توانائی کی بچت کی جائے ۔اس کا سب سے مناسب اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ دن کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔یہ الگ بات ہے کہ ہمیں توانائی کے نت نئے ذرائع سے استفادہ کرنا چاہئے دنیا بھر میں اس وقت بجلی سورج کی روشنی اور ہوا سے تیار کی جاتی ہے جو سستی بھی ہے اور فراوانی سے دستیاب بھی۔ ہمیں بیک وقت دو طرح کے اقدامات اٹھانا ہوں گے ایک تو توانائی کے نئے ذرائع سے استفادہ کر کے بجلی بڑھانی ہوگی اور ساتھ موجودہ توانائی کو کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کر کے بچت پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا صرف اسی صورت میں ہم توانائی بحران پر قابو پا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر شہری کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ۔