بجٹ : اعداد و شمار اور حقائق۔۔۔

مشکل حالات اور عالمی منظرنامے پر معاشی کساد بازاری کے سائے میں حکومت نے مالی سال 2023 - 24 کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ نئے مالی سال کے میزانیے کے بعض نکات یقینا قابل اطمینان ہیں اور حکومت کی جانب سے عوام کو سہولت فراہم کرنے کی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں، جیسا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک اور پنشن میں 17.5 فیصد تک اضافہ اور کم از کم تنخواہ 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ٹارگٹڈ سبسڈی کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں؛ تاہم بجٹ کے بہت سے نکات پر بحث جاری ہے ۔، مثال کے طور پر معیشت کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جبکہ رواں سال معاشی نمو کی شرح 0.3 فیصد رہی۔ اس طرح ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ہدف رواں مالی سال کے 7200 ارب روپے سے بڑھا کر 9200 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو 1618 ارب روپے سے 2963 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر ٹیکسوں کا حجم 8818 ارب روپے سے بڑھا کر 12163 ارب روپے تک جا پہنچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب معیشت شدید ترین دبا ﺅمیں ہے اور رواں سال کے وصولیوں کے اہداف بھی مکمل نہیں ہو سکے یہ اضافی 3345 ارب روپے کہاں سے آئیں گے؟ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ اہم ٹیکس، کیپٹل ویلیو ٹیکس، سیلز ٹیکسی موبائل فونوں پر عائد کی گئی لیوی پٹرولیم لیوی اور توانائی کے دیگر وسائل جیسا کہ قدرتی گیس اور ایل پی جی پر عائد لیویز وغیرہ سے تو یہ معاشی نمو کیلئے حوصلہ افزا اشارہ نہیں، حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح جسے اس سال فروری کے منی بجٹ میں بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا تھا کو بھی بدستور لا گورکھا ہے جبکہ بہت سی اشیا کولگژری آئٹم قرار دیتے ہوئے ان پر یہ ٹیکس 25 فیصد کی بلند ترین شرح سے لاگو ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ ضرورت کی بہت سی اشیا ءجن کی تیاری اصولاً ملک ہی میں ہونی چاہئے کہ قریب 25 کروڑ کی آبادی والا یہ ملک کوئی چھوٹی مارکیٹ نہیں، مگر ملک کے اندر پیداواری شعبے کے جمود اور غیر پر کشش کا روباری حالات کے نتیجے میں صنعتی تنزل کی وجہ سے ضروریات زندگی کی بہت سی اشیا درآمد کی جاتی ہیں، اور صارف کے پاس ان اشیا ءمیں مقامی اور درآمدی کے انتخاب کی گنجائش ہی نہیں۔ اگر ایسی کوئی مقامی ساختہ چیز موجود ہے تو معیار میں غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ سے صارف کو چاروناچار درآمدی شے ہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ اور بلند ترین شرح ٹیکس ان اشیا ءکی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے‘ بجٹ 2024 کا یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اس میں برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جو مالی سال 2023 سے بھی دو ارب ڈالر کم ہے جبکہ کچھ ہی روز پہلے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کہہ رہے تھے کہ اگلے آٹھ سال میں برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک نہ بڑھا سکے تو پاکستان کبھی بھی ٹیک آف کی پوزیشن میں نہیں آسکتا۔